ثبوت قیامت اور اس کے دلائل قرآن پاک کی روشنی میں |
ہم نوٹ : |
|
درگزر فرمادیتے ہیں۔ آہ!یہ کیا بات ہے، کیا بات ہے اس بات کی کہ جو شخص اپنے حال کو درست کرلیتا ہے،مالک کو راضی کرلیتا ہے، رو رو کر اس کو منالیتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے ماضی کو درگزر فرمادیتے ہیں اور جس کا حال درست ہوجاتا ہے اس کے مستقبل کو اللہ تعالیٰ نورِ تقویٰ سے تابناک کردیتے ہیں۔ اس دعا میں تینوں زمانوں کی اصلاح موجود ہے، ماضی درست ہوجائے، حال درست ہوجائے، اور مستقبل بھی۔ اور اللہ تعالیٰ نے اُولٰٓئِکَ ہُمُ الرّٰشِدُوۡنَ جملۂ اسمیہ سے نازل فرمایا، کہ جس کے قلب کو ہم محبت دیں گے اور کفر و فسق و نافرمانی سے کراہت دیں گے تو وہ رَاشِدُوْنَ ہوجائیں گے۔ جملۂ اسمیہ دلالت کرتا ہے دوام پر، یہاں جملۂ فعلیہ سے نازل نہیں فرمایا ورنہ رُشد و ہدایت میں عدمِ استقلال لازم آتا۔ جملۂ اسمیہ نازل کرکےاللہ تعالیٰ نے بتادیا کہ اہلِ محبت کبھی گمراہ نہیں ہوتے اور اللہ تعالیٰ سے ان کی محبت میں اور کفر و فسق وعصیان سے ان کی کراہت میں دوام ہوتا ہے۔ اہلِ محبت کے بارے میں خواجہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا شعر ہے ؎میں ہوں اور حشر تک اس دَر کی جبیں سائی ہے سرِ زاہد نہیں یہ سر سرِ سودائی ہے علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ تفسیر روح المعانی میں فرماتے ہیں کہ محبت کی لغت بغیر دونوں ہونٹ ملائے ادا نہیں ہوسکتی۔تو معلوم ہوا کہ جس کا اسم اور لغت متقاضی وصلِ دوام ہے اس کا مسمیٰ کیسا ہوگا؟ لہٰذا جس کو اللہ تعالیٰ اپنی محبت عطا کریں گے وہ گناہوں پر دوام نہیں کرسکتا، استغفار توبہ اور آنسوؤں سے اپنے وصل کوبحال کرلے گا۔ مچھلی کو پانی سے محبت ہے، تو بتاؤ اگر مچھلیوں کو ڈرایا جائے کہ سمندر میں آج کل بڑی مچھلیاں آئی ہوئی ہیں جو چھوٹی مچھلیوں کو نگل رہی ہیں، لہٰذا تم چند دن دریا سے باہر گزار لو ورنہ کسی بڑی مچھلی کا لقمہ بن جاؤگی،تو کیا مچھلیاں باہر نکل آئیں گی؟ وہ کہیں گی کہ پانی سے تو باہر نکلتے ہی ہمیں موت آجائے گی، اگر مرنا ہی ہے تو یہیں مرجائیں گے، پانی جیسے معشوق کو ہم چھوڑ نہیں سکتیں ؎گرچہ در خشکی ہزاراں رنگ ہاست ماہیاں را با یبوست جنگ ہاست اے دنیا والو! دریا سے باہر خشکی میں ہزاروں رنگینیاں پیدا کرلو مگر مچھلیوں کو خشکی سے جنگ