ثبوت قیامت اور اس کے دلائل قرآن پاک کی روشنی میں |
ہم نوٹ : |
|
اے اصحابِ نبی! حَبَّبَ اِلَیۡکُمُ الۡاِیۡمَانَ ہم نے تمہارے دل میں ایمان کو محبوب کردیا۔ وَزَیَّنَہٗ فِیۡ قُلُوۡبِکُمۡ اور تمہارے دل میں اس کو رچادیا، مزین کردیا، راسخ کردیا۔ وَ کَرَّہَ اِلَیۡکُمُ الۡکُفۡرَ اور مکروہ کردیا تمہارے دل میں کفر کو وَ الۡفُسُوۡقَ وَ الۡعِصۡیَانَ 14؎ اور گناہِ کبیرہ کو اور مطلق گناہ، ہر قسم کے گناہ یعنی گناہِ صغیرہ کو، یہ تعمیم بعد التخصیص ہے، فسوق خاص ہے بڑے گناہ کے لیے، فاسق اس کو کہتے ہیں جو گناہِ کبیرہ کا مرتکب ہو اور عصیان مطلق گناہ، ہر قسم کی نافرمانی کو شامل ہے، اس کو بلاغت میں تعمیم بعد التخصیص کہتے ہیں۔ یہ میں آپ کو مختصر المعانی پڑھارہا ہوں۔ تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اے اصحابِ نبی! ہم نے تمہارے دلوں میں ایمان کو محبوب کردیا اور کفر کو، کبیرہ گناہ کو اور تمام قسم کی نافرمانیوں کو مکروہ کردیا۔ مکروہ کے کیا معنیٰ ہیں اور محبوب کے کیا معنیٰ ہیں؟ علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: اَلْمَکْرُوْہُ ہُوَ ضِدُّ الْمَحْبُوْبِ 15؎مکروہ فعل وہ ہے جو محبوب کی ضد ہو۔ اور اَلْمَحْبُوْبُ ھُوَ ضِدُّ الْمَکْرُوْہِ محبوب فعل وہ ہے جو مکرو ہ کی ضد ہو۔ تو اللہ تبارک و تعالیٰ نے یہاں دونوں متضاد الفاظ کو نازل فرمایا کہ حَبَّبَ تو یہ ہے کہ ایمان کو محبوب کردیا اور کَرَّہَ کیا ہے؟ ایمان کی ضد، ایمان کا اپوزٹ (Opposite) اور دشمن ہے۔ کفر دشمنِ کامل ہے اور فسوق اور عصیان دشمنِ ناقص ہیں۔ دشمنِ ناقص سے دوستی کروگے تو ایمان ناقص ہوجائے گا اور دشمنِ کامل یعنی کفر سے دوستی کروگے تو ایمان ہی ختم ہوجائے گا، لہٰذا حَبَّبَ وَکَرَّہَ دو نعمتیں ہیں، بعضوں کےدل میں حَبَّبَ تو ہے مگر حَبَّبَ کامل نہیں ہے، کیوں کہ ان کے پاس کَرَّہَ نہیں ہے، ہر وقت گناہ کی چاٹ پڑی ہے، گناہوں کی چاٹ کھانے والے کا دل نیکیوں سے اُچاٹ رہتا ہے، ایسا شخص کبھی سکون نہیں پائے گا۔ اس آیتِ مبارکہ _____________________________________________ 14؎الحجرٰت: 7 15؎ردالمحتار:257/1،مطلب فی تعریف المکروہ،دارعالم الکتب، ریاض