وصیت نہیں کی ہو تو گو ورثہ پر اس کی طرف سے فدیہ ادا کرنا واجب نہیں ہے ؛ لیکن اگر ورثہ اپنی خوشی سے فدیہ ادا کردیں ، تو جائز ہے اور اللہ تعالیٰ کی کریم ورحیم ذات سے امید رکھنی چاہئے کہ اللہ اسے قبول فرمالیں گے : ’’ وإن لم یوص لورثتہ وتبرع بعض ورثتہ یجوز ‘‘ (حوالۂ سابق )
جمعہ کے دن موت
سوال :- عوام میں یہ بات مشہور ہے کہ جس کی موت جمعہ کے دن ہو ، اس پر عذاب قبر نہیں ہوتا ہے ، اس کی حقیقت کیا ہے ؟( محمد اسماعیل ، ملے پلی )
جواب:- یہ روایت ترمذی شریف میں ہے ، حدیث کے الفاظ اس طرح ہیں : ’’ ما من مسلم یموت یوم الجمعۃ أو لیلۃ الجمعۃ إلا وقاہ اللہ فتنۃ القبر‘‘ ( ترمذی ، حدیث : ۱۰۷۴ )’’ جس مسلمان کی روز جمعہ ، یا شب جمعہ موت واقع ہوتی ہے ، اللہ تعالیٰ قبر کی آزمائش سے اس کی حفاظت فرماتے ہیں ‘‘ ؛ لیکن یہ حدیث سند کے اعتبار سے ضعیف ہے ، خود امام ترمذی ؒ نے اس حدیث کے بارے میں فرمایا ہے کہ : اس کی سند متصل نہیں ہے اور بعض واسطے حذف ہوگئے ہیں : ’’ولیس إسنادہ بمتصل‘‘ مولانا انور شاہ ؒ نے بھی یہی لکھا ہے کہ یہ حدیث صحیح نہیں ہے ، ماصح الحدیث (العرف الشذی : ۱/۳۵۶ ، ط : رحیمیہ دیوبند ) مولانا رشید احمد گنگوہی ؒ نے اس روایت کے بارے میں بعض علماء کا نقطۂ نظر لکھا ہے کہ صرف جمعہ کے دن اور رات وہ عذاب سے محفوظ رہے گا ، اگر مستحق عذاب ہو تو شب ہفتہ سے عذاب دیا جائے گا ۔ ( الکوکب الدری : ۱/۳۲۵ ) واللہ اعلم
کرسی پر نماز پڑھنے والا قیام میں کہاں کھڑا ہو ؟
سوال:- معذور اشخاص ( جو نیچے بیٹھ کر سجدۂ و قعدہ نہیں کرسکتے ) مسجد میں کرسیوں پر بیٹھ کر نماز پڑھنے والوں کے بارے میں کسی سوال کے جواب میں آپ نے فرمایا تھا کہ جس حد تک آدمی کھڑا ہوسکتا ہے ، وہ کھڑا ہوکر پڑھے اور باقی نماز بیٹھ کر کرسی پر ادا کرسکتا ہے ، اس سلسلہ میں عرض یہ ہے کہ صف کے آخر میں کرسی رکھ کر آدمی نماز کے لئے کھڑا ہوجائے ، تو صف سے کچھ آگے نکل جاتا ہے ، اور قعدہ میں آکر کرسی پر بیٹھ کر صف میں شامل ہوجاتا ہے ، اس طرح ایک عجیب صورت پیدا ہوجاتی ہے ، کہ کوئی آگے کوئی پیچھے ، جبکہ رسول اللہ ا نے صف سیدھی رکھنے کی بڑی تاکید فرمائی ، اس پر یہاں ایک صاحب نے اظہار خیال فرمایا کہ بہتر ہوگا کہ حضور کی ہدایت کو مد نظر رکھ کر معذور شخص پوری نماز کرسی پر بیٹھ کر پڑھے ، تو سنت کی پیروی بھی ہوگی ، اور صف سے آگے کھڑے ہونے کی ضرورت بھی نہیں پڑے گی ، البتہ تنہا نماز پڑھنے والا جس طرح چاہے پڑھ سکتا ہے ، اس سلسلہ میں آپ سے رہنمائی کی درخواست ہے ۔ (ابو سہیل ، آصف نگر ، سید خواجہ فخر الدین قادری ، قدیم ملک پیٹ)
جواب:- یہ صحیح ہے کہ جو شخص کھڑے ہونے پر قادر ہو ، اس کو کھڑے ہوکر ہی قیام کی حالت کے افعال اداکرنا چاہئے ؛ کیوںکہ رسول اللہ ا نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص کھڑا ہوکر نماز پڑھ سکتا ہو ، کھڑا ہوکر پڑھے ، کھڑے ہونے پر قادر نہ ہو ، تب بیٹھ کر اور بیٹھنے پر بھی قادر نہ ہو ، تب لیٹ کر نماز ادا کرے ، (المعجم الکبیر ، حدیث نمبر : ۹۳۹۳) اسی لئے فقہاء اس بات پر متفق ہیں کہ جو شخص کھڑے ہونے پر قادر ہو ، اس کے لئے فرض نماز میں کھڑا ہونا فرض ہے ، اگر قیام پر قادر ہونے کے باوجود بیٹھ کرنماز پڑھے گا ، تو نماز ادا نہیں ہوگی ۔
اس بات کی وضاحت مناسب معلوم ہوتی ہے کہ جو شخص رکوع وسجدہ پر قادر نہ ہو اورقیام پر قادر ہو ، اس پر قیام فرض ہوگیا یا نہیں ؟ اس میں اختلاف ہے ، حنفیہ کے یہاں ایک قول یہ ہے کہ قیام کی فرضیت اس کے ذمہ باقی رہے گی ؛ کیوںکہ قیام ایک مستقل رکن ہے اورجس رکن