مونڈھے سے مونڈھا اور قدم سے قدم ملاکر کھڑے ہوا کرتے تھے ، قد وقامت اور جسامت میں فرق کے لحاظ سے یہ بات تو ممکن نہیں ہے کہ تمام نمازیوں کے مونڈھے ایک دوسرے سے ملے رہیں ؛ اس لئے یہ تعبیر بطور محاورہ کے ہے ، مطلب یہ ہے کہ ہم لوگ صفوں میں اتصال رکھتے ـتھے کہ ایک دوسرے سے مل کر کھڑے ہوتے ـتھے ، بیچ میں فاصلہ نہیں رہنے دیتے تھے : ’’۔۔۔ کان أحدنا یلزق منکبہ بمنکب صاحبہ وقدمہ بقدمہ ‘‘ (بخاری ، کتاب الجماعۃ والإمامۃ ں باب الزاق المنکب بالمنکب الخ ، حدیث نمبر : ۶۹۲)؛ اس لئے صفوں کے درمیان عمداً جگہ خالی چھوڑ دینا درست نہیں ، فقہاء نے یہاں تک لکھا ہے کہ اگر پہلی صف میں دو نمازیوں کے درمیان جگہ خالی رہ گئی ہو اور دوسری صف مکمل ہوگئی ہو تو آنے والے نمازی کو چاہئے کہ دوسری صف کو پھاڑتے ہوئے پہلی صف میں پہونچ کر جو جگہ خالی ہے ، اسے پُر کردے ۔
گھر میں نماز کی جگہ مخصوص کرنا
سوال:- میں بہت بوڑھا ہوگیاہوں ، بیمار بھی رہتا ہوں اورمسجد بھی نہیں جاسکتا ، گھر پر ہی نماز ادا کرلیتا ہوں ، ایسی صورت میں مجھے کیا گھر میں کوئی جگہ مخصوص کرلینی چاہئے یا کسی بھی جگہ نماز ادا کی جاسکتی ہے ؟ ( صبیح الدین انصاری ، جدہ )
جواب:- اگر آپ مسجد نہیں جاسکتے اور گھر میں ہی نماز ادا کرنے پر مجبور ہیں تو گھر میں کہیں بھی نماز ادا کرسکتے ہیں ، کیوںکہ اللہ تعالیٰ نے تمام روئے زمین کو اس امت کے لئے نماز گاہ بنادیا ہے ، صرف مسجدیں ہی نماز کے لئے مخصوص نہیں ہیں ، لیکن بہتر ہے کہ آپ اپنے گھر میں کسی جگہ کو نماز کے لئے متعین کرلیں ، اس جگہ کو صاف ستھرا رکھا جائے اور سب لوگ اسی جگہ پر نماز ادا کرنے کا اہتمام کریں ، صحابی رسول احضرت عتبان بن مالک ص بارش وغیرہ ہوجانے کے وقت مسجد نہیں آپاتے تھے ، انہوں نے رسول اللہ ا سے خواہش کی کہ آپ ان کے دولت خانہ میں کسی بھی جگہ کو اپنی نماز پڑھنے کے لئے استعمال کریں ، آپ ا نے ان کی یہ خواہش پوری فرمائی ۔(بخاری : ۴۲۵ ) اس پس منظر میں فقہاء نے لکھا ہے کہ ہر مسلمان کے لئے مستحب ہے کہ وہ اپنے گھر میں ایک جگہ نماز کے لئے مخصوص کرلے ، البتہ اس کی وجہ سے اس جگہ پر مسجد کے تمام احکام جاری نہیں ہوں گے ، اس کو بیچنا یا بحالت ناپاکی وہاں بیٹھنا وغیرہ جائز ہوگا :’’ مندوب لکل مسلم أن یعد فی بیتہ مکانا یصلي فیہ إلا أن ہذا المکان لا یأخذ حکم المسجد علی الإطلاق ؛ لأنہ باق علی حکم ملکہ ، لہ أن یبیعہ ‘‘ ( الفتاوی الہندیۃ : ۵/۲۲۰ )
نماز کا فدیہ
سوال:- میری نانی کا کچھ عرصہ پہلے انتقال ہو گیا ، وہ نماز کی پابند تھیں ؛ لیکن اخیر زمانہ میں کچھ نمازیں چھوٹ گئی ہیں ، انہوں نے اپنے بچوں کو وصیت کردی ہے کہ ان کی نمازوں کا کفارہ ادا کردیا جائے ، ایسی صورت میں کیا کفارہ ادا کرنا ہوگا ؟ صرف فرض نمازوں کا کفارہ ادا کیا جائے گا یا سنن و نوافل کا بھی ؟ نیز اگر نانی نے وصیت نہیں کی ہوتی ، کیا اس صورت میں بھی کفارہ ادا کیا جاسکتا ہے ؟ (عابدہ عبد اللہ ، شاہین نگر )
جواب:- حدیث میں روزہ کے فدیہ کا ذکر آیا ہے ، بلکہ قرآن مجید میں بھی ، (البقرۃ : ۱۸۴) — میرے علم کے مطابق قرآن یا حدیث میں صراحتاً نماز کے فدیہ کا ذکر نہیں آیا ہے ؛ لیکن جیسے نماز فرض ہے ، اسی طرح روزہ بھی فرض ہے ؛ بلکہ بعض جہتوں سے نماز کی اہمیت روزہ سے بڑھ کر ہے ؛ اس لئے فقہاء نے روزہ پر قیاس کرتے ہوئے نماز چھوڑنے پر بھی فدیہ کو جائز قرار دیا ہے ، اور وہ اس طرح کہ پانچوں فرض نمازوں اور نماز وتر میں سے ہر ایک کے فدیہ کے طور پر پونے دو کیلو گیہوں ایک ایک مسکین کو دیا جائے ، سنتوں کے چھوڑنے پر فدیہ واجب نہیں : ’’ إذا مات الرجل وعلیہ صلوات فائتۃ فأوصی بأن تعطي کفارۃ صلواتہ یعطي لکل صلاۃ نصف صاع من بر وللوتر نصف صاع إلخ ‘‘ (الفتاوی الہندیۃ : ۱/۱۲۵)اگر مرنے والے نے