صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ امامت فرمایا کرتے تھے ، البتہ ایک بار سیدنا حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کے پیچھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی ہے ؛ کیوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز شروع ہونے کے بعد تشریف لائے تھے ؛ اس حدیث میں اس کا کوئی ذکر نہیں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بازور میں کھڑے ہوئے مصلی کے ساتھ قدم ملایا تھا یا نہیں اور مرض وفات میں سیدنا حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ساتھ بیٹھ کر نماز ادا فرمائی ، اس میں بیٹھے ہونے کی وجہ سے ذکر نہیں ملتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاؤں حضرت ابو بکر کے پاؤں سے ملے ہوئے تھے ، جہاں تک زبانی ارشاد کی بات ہے تو میرے حقیر علم کے مطابق ایسی کوئی روایت نہیں جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پاؤں سے پاؤں ملاکر کھڑے ہونے کا حکم دیا ہو ؛ البتہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے گردن سے گردن اور مونڈھے سے مونڈھے ملانے یا ان کو ایک دوسرے کے برابر کرنے کا حکم دیا ہے ، حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی روایت میں گردنوں کو ایک دوسرے کے بالمقابل رکھنے کا حکم ہے : ’’ حاذوا بالأعناق ‘‘ أبو داؤد ،کتاب الصلاۃ ، باب تسویۃ الصفوف ، حدیث نمبر : ۶۶۷)حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی روایت میں مونڈھوں کو ایک دوسرے کے بالمقابل کرنے کا ذکر ہے : ’’ وحاذوا بین المناکب ‘‘(حوالہ سابق ، حدیث نمبر : ۶۶۶)؛ ہاں ، بعض صحابہ کا عمل منقول ہے کہ وہ ٹخنہ سے ٹخنہ اور قدم سے قدم ملایا کرتے تھے ، حضرت انس اور حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما سے یہ روایت نقل کی گئی ہے ، (بخاری مع الفتح : ۲؍۲۱۱) ۔۔۔۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کو سامنے رکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اصل مقصد یہ ہے کہ صف میں خلا نہیں ہونا چاہئے ؛ چنانچہ حضرت انس رضی اللہ عنہ کی مذکورہ روایت میں ہے کہ اپنی صفوں کو سیدھا کرو ، ایک دوسرے سے قریب قریب رکھو اور گردنوں کو ایک دوسرے کے مقابل کرو : ’’ ورصوا صفوفکم وقاربوا بینہا ‘‘ (حوالہ سابق ، حدیث نمبر : ۶۶۷) اورحضرت عبد اللہ بن عمر کی روایت میں ہے کہ مونڈھے آپس میں ملاکر رکھو ، فاصلوں کو پُر کردو اور شیطان کے لئے خالی جگہیں نہ چھوڑو : ’’ حاذوا بین المناکب وسدوا الخلل …. ولا تذروا فرجات للشیطان ‘‘ (حوالہ سابق ، حدیث نمبر : ۶۶۶) ان ارشادات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم صفوں کو سیدھارکھنے اور نمازیوں کے درمیان خلا پیدا نہ ہونے دینے کی ہدایت فرمائی ہے ، یعنی مقصود یہ ہے کہ نمازی نمازیوں کے ساتھ مل کر کھڑے ہوں ، ورنہ ظاہر ہے کہ مونڈھے سے مونڈھا ملاکر اور گردن کے مقابل گردن کا رکھنا ممکن نہیں ؛ کیوں کہ لوگوں کے قد و قامت میں فرق ہوتا ہے ، صفوں میں اتصال کے اس مقصود کو پورا کرنے کے لئے بعض صحابہ نے اجتہاد کرتے ہوئے قدم سے قدم ملاکر نماز ادا کی ، اس طرح انہوں نے اپنی کوشش کے مطابق حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے منشأ کو پورا فرمایا ؛ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ایک نمازی کا پاؤں دوسرے نمازی کے پاؤں سے سٹا ہوا ہو ؛ کیوں کہ اس سے بعض نماز پڑھنے والوں کو بے سکونی کا احساس ہوتا ہے اور ان کی توجہ نماز سے ہٹ جاتی ہے ، سنت یہ ہے کہ نمازیوں کے درمیان قابل لحاظ خلا باقی نہ رہے ، بعض روایتوں میں ہے کہ خلا رہ جاتا ہے تو شیطان بکریوں کے بچے کی شکل میں بیچ میں داخل ہوجاتا ہے ، اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ دو نمازیوں کے درمیان اتنا فاصلہ نہ ہونا چاہئے کہ بکری کے بچہ جیسا چھوٹا جانور درمیان سے گذر جائے ، بہر حال ! ایسے مسائل میں شدت برتنا شریعت کے مزاج کے خلاف ہے اور اس سے امت کو بہت نقصان پہنچ رہا ہے ۔
مسجد سے جوتے چپل کی چوری
سوال:۔ افسوس کی بات ہے کہ آج کل مسجدوں سے جوتے چپل غائب ہونے کے واقعات بہ کثرت پیش آنے لگے ہیں ، ایسے موقع پر جو لوگ پریشان ہوتے ہیں ، وہ کسی اور کی چپل لے کر چلے جاتے ہیں ، ان کا مقصد دوسرے کی چیز لینا نہیں ہوتا ؛ لیکن مجبورًا انہیں ایسا کرنا پڑتا