یااجماع صریحی کا انکار کرتاہے یانص میں تاویل کرتاہے اوراگر کسی نص کا انکار کرتاہے تو یہ نص اپنے ثبوت اوراپنے مفہوم کے اعتبار سے قطعی ہے یاقطعی نہیںہے ؟ اگر اہل علم اس سلسلہ میں احتیاط سے کام لیں تو امت کے درمیان پائے جانے والا بہت سارا اختلاف دور ہوجائے۔
مسجد کی زمین میں بازار
سوال:- ہمارے یہاں ایک مسجد ہے ، اس مسجد کے چاروں طرف کشادہ زمین ہے اوریہ زمین باؤنڈری سے گھری ہوئی ہے ،اس کشادہ زمین پر ہفتہ میں ایک دن باز ارلگتا ہے اورقصبہ اوراس کے مضافات کے قریہ جات سے لوگ وہاں آکر خرید وفروخت کرتے ہیں، جولوگ اپنی دکان لگاتے ہیں ، وہ ہر ہفتہ مسجد کو کچھ رقم اداکرتے ہیں، بعض لوگوں کو اعتراض ہے کہ مسجد میں کسی چیز کا خرید نا اوربیچنا جائز نہیں اوراس کی اجرت لینا بھی جائز نہیں ؛ اس لئے یہ صورت درست نہیں؛ حالانکہ اس سے مسجد کی اچھی خاصی آمدنی ہوجاتی ہے ، براہ کرم اس کی وضاحت فرمائیں (محمد محبوب شریف، نظام آباد)
جواب:-یہ درست ہے کہ مسجد میں خرید وفروخت جائز نہیں ، اورجب مسجد میں سامان کا بیچنا جائز نہیں تو ظاہر ہے کہ مسجد کاکوئی حصہ اس مقصد کے تحت کرایہ پر لگانا بھی جائز نہیں ہوگا، لیکن یہ حکم اصل مسجد کاہے ، یعنی مسجد کاوہ حصہ جس کو نماز اداکرنے کے لئے مخصوص کرلیا گیا ہو، جوجگہ نماز کے لئے مخصوص نہ ہو، ؛لیکن مسجد کی ملکیت ہو جیسے مسجد کی افتادہ اراضی وغیرہ ، تواس کا یہ حکم نہیں وہاں خریدوفروخت بھی جائز ہے اوراس مقصد کے لئے کرایہ پر لگانا بھی جائز ہے: وسئل الخجندی عن قیم المسجد یبیع فناء المسجد لیتجر القوم ہل لہ ہذہ الاباحۃ ؟فقال :اذا فیہ مصلحۃ للمسجد فلا بأس بہ ان شاء اللہ تعالیٰ (فتاوی ہندیہ ، کتاب الکراہیۃ ، الباب الخامس فی آداب المسجد :۵؍ ۳۲۰)
ٹورنامنٹ کی ایک صورت
سوال:-ہمارے یہاں گرما کے موسم میں کچھ لوگ مل جل کر ٹورنامنٹ منعقد کرتے ہیں ، اس کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ چند افراد کاگروپ بن جاتا ہے یہ اعلان کرتے ہیں کہ جوٹیم کامیاب ہوگی، اس کو فلاں فلاں انعام دیا جائے گا، پھر مختلف محلوں کے لوگ اپنی اپنی ٹیم بناتے ہیں اوراپنا نام لکھاتے ہیں ،بحیثیت مجموعی کئی درجن ٹیم ہوجاتی ہیں، ہر ٹیم کو ایک مختصر فیس مثلا پانچ سو روپیہ اداکرنا ہوتاہے اورجو ٹیم فائنل میں جیت جاتی ہے، اس کو انعام میں کافی قیمتی اشیاء دی جاتی ہیں ، لوگوں کااندازہ ہے کہ کھیلانے والے حضرات ٹیم کا انعام اورانتظامی اخراجات نکالنے کے بعد کچھ رقم اپنے لئے بھی بچالیتے ہیں، کیا کھیل کی یہ صورت جائز ہے؟ (محمد شاہد، بنارس)
جواب:-کھیل کے سلسلے میں چند باتیں پیش نظر رکھنی چاہیں:
(الف) ایسا کھیل جوکسی حرام فعل پر مشتمل ہو، ناجائز ہے ، جیسے : فری اسٹائیل کشتی ، انسان اورجانور کا مقابلہ یاجانور اورجانور کامقابلہ ؛ کہ یہ انسان یاکسی اورجاندار کی ہلاکت یاایذائے شدید پر ختم ہوتاہے اوران دونوں باتوں کا گناہ اورحرام ہونا ظاہرہے۔
(ب) کھیل خود جائز ہو؛ لیکن ایسا طریقہ کاراختیار کیا گیا ہو جو حرام کو شامل ہو ،یہ بھی جائز نہیں ، جیسے : کھیلاڑیوں کاایسا لباس پہننا جوستر سے متعلق شرعی احکام کو پورا نہ کرتاہو، یا ایسے وقت میں کھیلنا جس سے کھیلنے والوں اورکھیل دیکھنے والوں کی نماز فوت ہوجائے اورنماز کے لئے کوئی وقفہ نہ دیا جائے۔
(ج) ایسا کھیل جو گھنٹہ ڈیڑ ھ گھنٹہ میں ختم نہ ہوسکے ؛بلکہ اس میں بہت سارا وقت ضائع ہوتاہو ، جیسے : موجودہ دور میں کرکٹ ، یہ بھی مکروہ ہے اورفقہاء نے اسی علت کی بناء پر شطرنج کو -چاہے جوانہ ہو- پھر بھی مگروہ قرار دیا ہے۔