بسم اللہ الرحمن الرحیم
آپ کے شرعی مسائل
حصرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی مدظلہ العالی
تعلیمی قرضوں کا حصول
سوال :۔ آج کل گورنمنٹ نے اقلیتوں کے لئے کئی فلاحی اسکیمیں شروع کی ہیں ، ان فلاحی کاموں میں بھی تعلیم کو خصوصی اہمیت دی جاتی ہے ، چنانچہ اقلیتی طلبہ کو وزارت اقلیتی بہبود کے تحت ایسے تعلیمی قرضے فراہم کئے جاتے ہیں جن پر سالانہ صرف دس فیصد سود لیا جاتا ہے ، یہ سود کی بہت ہی کم شرح ہے ، کیوں کہ یہ ماہانہ ایک فیصد سے بھی کم پڑتی ہے ، اس کا بنیادی مقصد اقلیتوں کو تعلیم میں آگے بڑھانا اور ان کی حوصلہ افزائی کرنا ہے ، کیا مسلمان طلبہ ایسے لون ( Lone) سے فائدہ اٹھاسکتے ہیں ؟ ( عبد الصمد ، چنچل گوڑہ )
جواب :۔ جن طلبہ نے کسی شعبہ میں داخلہ کے لئے مطلوب معیار کو حاصل کرلیا ہو ، لیکن ان کے پاس اتنی رقم یا اپنی بنیادی ضروریات کے علاوہ اس قیمت کی اشیاء موجود نہ ہوں ، اور غیر سودی قرض ملنا بھی دشوار ہو تو ان کے لئے ایسے قرض سے فائدہ اٹھانا جائز ہے ، کیوں کہ تعلیم بھی ہمارے سماج کے لئے ایک اجتماعی حاجت ہے اور حاجت کی بنا پر سودی قرض لینے کی اجازت دی گئی ہے ، ’’ و یجوز للمحتاج الإستقراض بالربح ‘‘ ( الأشباہ و النظائر لابن نجیم ) بلکہ بعض اہل علم نے ایسی اسکیموں کے مقاصد اور زائد رقم کے تناسب میں کمی کے پیش نظر اسے سروس چارج شمار کیا ہے ، یعنی یہ ان کے نزدیک قرض دینے والے ادارہ کے انتظامی اخراجات کے درجہ میں ہیں ۔ و اللہ اعلم
رشوت کے کپڑے میں نماز
سوال: ۔ اگر کسی کی جیب میں رشوت کا روپیہ پڑا ہو اور بدن پر رشوت کے روپیوں سے خریداہوا کپڑا ہو تو نماز درست ہوجائے گی یا نہیں ؟ (قاری ایم ایس خان ، ملک پیٹ)
جواب:۔ رشوت حرام اور سخت گناہ ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف رشوت لینے والے پر ؛ بلکہ رشوت دینے والے پر بھی لعنت فرمائی ہے ؛ (سنن أبي داؤد ، کتاب الأقضیۃ ، باب في کراہیۃ الرشوۃ ، حدیث نمبر : ۳۱۰۹ ، سنن الترمذي ، کتاب الأحکام ، باب ما جاء في الراشي والمرتشي في الحکم ، حدیث نمبر : ۱۲۵۶) لیکن یہ نماز کے درست ہونے میں رکاوٹ نہیں ، اصل میں نجاست کی دو قسمیں ہیں : ایک مادی نجاست ، جیسے پیشاب پاخانہ کا لگاہونا یا انسان کا بے وضوء ہونا ، جو شخص ایسی نجاست سے آلودہ ہو اس کی نماز درست نہیں ہوگی ، دوسری قسم : روحانی نجاست ہے ، یعنی جس نجاست کا تعلق جسم اور کپڑے وغیرہ سے نہ ہو ؛ بلکہ انسان کے عمل سے ہو ، جیسے سود ، رشوت وغیرہ ، اگر کوئی شخص ایسی نجاست سے آلودہ ہوتو اس کی نماز فقہی اعتبار سے تو درست ہو جائے گی ؛ لیکن احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کے دربار میں مقبول نہیں ہوگی ، اور بندہ کا کوئی عمل رحمن و رحیم کے دربار سے واپس ہوجائے ، اس سے بڑھ کر محرومی کی بات اور کیا ہوسکتی ہے ؛ اس لئے ایسے شخص کی نماز تو ادا ہوگئی ؛ لیکن اسے توبہ کرنا چاہئے اور آئندہ ایسے فعل سے بچنا چاہئے ۔
نماز میں کہنیوں کا کھلا رہنا
سوال: ۔ اگر مردانی یا زنانی کہنیاں حالت نماز میں کھلی ہوئی ہوں تو ایسی صورت میں نماز ہوجائے گی یا نہیں ؟ (قاری ایم ایس خاں ، ملک پیٹ)
جواب:۔ نماز کی حالت میں کہنیوں کو چھپا کررکھنا چاہئے ، یہ حکم مردوں اور عورتوں دونوں کے لئے ہے ؛ البتہ فرق یہ ہے کہ کہنیاں مردوں کے لئے حصۂ ستر میں شامل نہیں ہیں ؛ اس لئے اگر کہنیاں کھلی رکھ کر نماز اداکرے تو کراہت کے ساتھ نماز ادا ہوجائے گی ،اور یہاں