(فتاوی تاتار خانیہ : ۱۸؍ ۱۶۱)؛ اسی لئے کم سے کم اس کے خلافِ مستحب ہونے میں کوئی شبہ نہیں ، پھر یہ کہ اس کی وجہ سے تدفین میں تاخیر ہوتی ہے اور تدفین میں تاخیر کرنا مکروہ ہے ، بعض اوقات اس غیر ضروری سفر کے لئے میت کا ڈھیر سارا مال صرف ہوتا ہے ، جس سے تمام ورثہ کا حق متعلق ہوتا ہے ، ضروری نہیں کہ تمام ورثہ کو یہ بات پسند ہو کہ ان کا مال اس کام میں یہ صرف کیا جائے ، پھر بعض دفعہ کچھ ورثہ نابالغ ہوتے ہیں اور نابالغ کے مال کو اس کام میں خرچ کرنا جائز نہیں ، گو وہ رضامندی کا اظہار کردیں ؛ کیوں کہ ایسے معاملات میں ان کی رضا مندی کا اعتبار نہیں ، ایک اور نفسیاتی پہلو ہے کہ جب تک تدفین نہ ہوجائے ، اہل خانہ حزن وملال کی کیفیت میں رہتے ہیں ، چاہے حقیقۃً ہو یا رسماً ، اور بعض اوقات تو کھانے پینے سے بھی گریز کرتے ہیں ، اس طرح پورے خاندان والوں کے لئے یہ ایک تکلیف دہ بات ہوتی ہے ؛ لہٰذا دور دراز ملکوں اور علاقوں سے لاش کو منگانے کی رسم کو ختم کرنا چاہئے اور شریعت میں جو طریقہ پسندیدہ ہے ، اس پر عمل کرنا چاہئے ، اس میں دین ودنیا دونوں کی بھلائی ہے ۔
عمل کفایہ انفرادی حیثیت میں مستحب ہے
سوال:۔ جو عمل فرض کفایہ یا سنت کفایہ ہوتا ہے ، اس کے بارے میں یہ بات بتائی جاتی ہے کہ اگر کچھ لوگ بھی اس عمل کو کرلیں تو تمام لوگ گناہ سے بچ جائیں گے ؛ لیکن جس شخص نے اس پر عمل کیا ہو خود اس کے لئے اس کا کیا حکم ہوگا ؟ یہ وضاحت نہیں کی جاتی ، جیسے نمازِ جنازہ ہے کہ بہت سارے لوگوں نے نماز ادا کرلی تو نماز پڑھنے والوں کے حق میں اس عمل کی کیا حیثیت ہوگی ؟ (عبد المقتدر ندوی ، ممبئی)
جواب:۔ جو عمل بطور کفایہ کے مسلمانوں سے متعلق ہے ، اس کو جو لوگ انجام دیں گے تو یہ بات تو واصح ہے کہ ان کو اس عمل کا اجر حاصل ہوگا ، جو انجام نہ دینے والوں کو حاصل نہیں ہوگا ، انجام نہ دینے والے صرف گناہ سے بچ جائیں گے اور انجام دینے والے اجر وثواب کے مستحق ہوں گے ؛ البتہ اس کا یہ عمل سنت یا مستحب کے درجہ میں ہوگا ، یعنی اجتماعی حیثیت میں وہ فرض کفایہ تھا اور انفرادی حیثیت میں مندوب ہوگا ؟ ۔۔۔ کما أن أدنی درجات فرض الکفایۃ الندب ، کما في صلاۃ الجنازۃ ونحوہا ‘‘ (رد المحتار : ۸؍۴۲)
پیڈ پارکنگ سے گاڑی غائب ہوجائے ؟
سوال:۔ آج کل پروگراموں اور میلوں وغیرہ کے موقع سے پیڈ پارکنگ اسٹینڈ بنائے جاتے ہیں ، جس میں لوگ کرایہ دے کر اپنی گاڑی پارک کرتے ہیں اورہر ایک کے لئے الگ الگ نمبر ہوتا ہے ، ایک صاحب نے اپنی بائک پارک کی ؛ لیکن جب وہ واپس آئے تو انہیں جمع کی ہوئی موٹر سائیکل نہیں ملی ، اور اسٹینڈ والے نے کہا کہ کوئی دوسرا شخص تمہاری گاڑی لے کر چلاگیا ہے اور مجھ کو اندازہ نہیں ہوسکا ، ایسی صورت میں وہ اس کا ذمہ دار ہوگا یا سمجھا جائے گا کہ ایک امانت تھی جو اس سے کھوگئی ، اس لئے اس پر کچھ واجب نہیں ؟ (عبد المقتدر ندوی ، ممبئی)
جواب:۔ پارکنگ اسیٹنڈ والا اس بائک کا ضامن ہوگا اور اس پر بائک کی قیمت ادا کرنا ہواجب ہوگا ؛ا لبتہ قیمت گاڑی کی موجودہ حیثیت اور اس کے ماڈل کے نئے یا پرانے ہونے کے لحاظ سے لگائی جائے گی ، اس پر محض امانت کا حکم جاری نہیں ہوگا ؛ کیوں کہ اصول یہ ہے کہ اگر کسی شخص کے پاس کوئی چیز بطور امانت کے رکھی جائے اور وہ حفاظت کی اجرت بھی وصول کرلے تو اس اس کی حیثیت صرف امین کی نہیں ہوتی ؛ بلکہ وہ اس کا ضامن ہوتا ہے ، فقہاء کے یہاں بھی اس کی بعض واضح نظیریں موجود ہیں ، مثلاً اگر کوئی شخص حمام میں جائے اور رکھوالی کرنے والے کے پاس اپنا کپڑا رکھ دے ، حمام سے نکلنے کے بعد اس کو اس کا کپڑا نہ ملے تو فقہاء کی تصریح کے مطابق رکھوالی کرنے والا کپڑے کا ضامن ہوگا : ’’