’’تسعۃ أوقات یکرہ فیھا النوافل ۔۔۔ منھا بعد طلوع الفجر قبل صلاۃ الفجر ویکرہ فیہ التطوع بأکثر من سنۃ الفجر ‘‘ (الفتاوی الہندیۃ : ۱؍۵۲)
نفقہ میں بیوی کی پسند کی رعایت
سوال:۔ نان و نفقہ کی فراہمی میں کیا بیوی اپنی پسند شامل کرسکتی ہے ؟ کیا شرعی طور پر وہ یہ حق رکھتی ہے ؟(امۃ اللہ ، حیدرآباد)
جواب:۔ نفقہ میں تین باتوں کوبنیادی اہمیت حاصل ہے : اول عورت اور اس کے خاندان ، نیز شوہر اور اس کے خاندان کا معیار زندگی ؛ اس لئے کہ دونوں کی رعایت ضروری ہے ، مثلاً اگرشوہر کے گھر کا معیار زندگی اونچا ہے اور بیوی کا اس کے مقابلہ میں کمتر ہے یا اس کے بر عکس ہے تو ایسی شکل میں شوہر کو متوسط معیار زندگی کے مطابق نفقہ فراہم کرنا چاہئے ، دوسری چیز شوہر کی استطاعت اور گنجائش ہے ، بیوی اگر نفقہ کے طور پر ایسی چیز مانگے جو شوہر کے معیار سے اونچی ہو تو اس کا قبول کرنا شوہر پر ضروری نہیں ؛ کیوں کہ کوئی بھی شخص اپنی طاقت ، گنجائش اور صلاحیت کے مطابق ہی شرعاً ذمہ داریوں کا مکلف ہوتا ہے ، تیسرے : نفقہ کے سلسلہ میں عرف ورواج کی بھی اہمیت ہے ، جس زمانہ میں جس معیار کا کپڑا پہناجاتا ہو اور وہ شرعاً جائز ہو یا جس علاقہ جس طرح کے کھانے کھائے جاتے ہوں ، اس کے مطابق ان ضروریات کی فراہمی ضروری ہے ، اگر ان تفصیلات کو سامنے رکھا جائے تو اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ نفقہ کی ادائیگی میں بیوی کی پسند اور اس کے جذبات بھی شامل رکھے گئے ہیں ؛ البتہ یہ ضروری ہے کہ بیوی کی پسند شوہر کی گنجائش سے زیادہ نہ ہو ؛ کیوں کہ مرد سے بیوی کے علاوہ دوسرے رشتہ داروں کے حقوق بھی متعلق ہیں ، یہ بات درست نہیں ہے کہ مرد اپنی بیوی کی خواہشات کو پورا کرنے کے لئے دوسرے رشتہ داروں کے حقوق کو نظر انداز کردے ۔
نافرمان بیوی کا نفقہ
سوال :۔ ’’ الف ‘‘ کی بیوی بڑی ہی نافرمان اور بد زبان ہے ، گووہ اس کے گھر میں ہی ہے لیکن شوہر اس کی بدسلوکی کی وجہ سے اس سے تنگ آچکا ہے ، تو کیا ایسی عورت کا خرچ شوہر کے ذمہ واجب ہوگا ؟ ( مشتاق احمد ، سلطان شاہی )
جواب :۔ ’’ الف ‘‘ کو چاہئے کہ وہ اپنی بیوی کو سمجھائیں اگر اس کا کوئی جائز مطالبہ ہوتو اسے پورا کریں ، اگر اس کا سمجھانا کافی نہ ہو تو خاندان کے دوسرے بزرگوں کی مدد سے سمجھانے کی کوشش کریں ، تاہم نافرمان ہونے کے باوجود اگر وہ شوہر ہی کے گھر میں ہوتو اس کا نفقہ شوہر ہی پر واجب ہوگا ، شریعت کے اصطلاح میں ناشزہ سے مراد وہ عورت ہے جو شوہر کے گھر سے بلا اجازت چلی گئی ہو یا شوہر کے ساتھ جس گھر میں رہتی ہو اس میں شوہر کو داخل نہ ہونے دے:
’’ وفی الشرع الخارجۃ عن منزلۃ زوجہا المانعۃ نفسہا منہ … وہو عدم تمکینہا لہ من الدخول فی منزلہا الذی یسکنان قبل أن تسئلہ النفقۃ ، لأنہا کالخارجۃ ‘‘ ( البحر الرائق : ۴/۳۰۳ ، نیز دیکھئے ، ہندیہ : ۱/ ۴۲۶ )
(بصیرت فیچرسروس)