میں ادا کرنے کا ذکر نہیں ملتا : ’’ إن أہل المتون والفقہاء قد صرحوا بقضاء سنۃ الظہر إن فاتت قبلہ بعدہ ولم یذکروا قضاء سنۃ الجمعۃ ، فیعلم منہ أنہ لا قضاء لہا إذا فاتت قبلہا ؛ لأن السکوت فی معرض البیان بیان ‘‘(رد المحتار:۲؍ ۵۸) ہندوستان کے ممتاز فقیہ مولانا عبد الحی فرنگی محلیؒ نے بھی یہی جواب دیا ہے : ’ ’فإن الصلاۃ بعد الخطبۃ قبل الصلاۃ مکروہۃ ولا یقضیہا بعدہا أیضا ‘‘ (نفع المفتی والسائل،ص : ۲۵۲)
بلڈپریشر اور شوگر کے مریض کا سفر حج
سوال:۔ ہمارے ایک عزیز بلڈ پریشر کے مریض ہیں اور ان کے اس مرض میں برابر اتار چڑھا ہوتا رہتا ہے ، اس کے ساتھ ساتھ شوگر بھی ہے اور بعض دفعہ شوگر بہت بڑھ جاتی ہے ، ایسے شخص کے لئے سفر حج کا کیا حکم ہے ، جبکہ اس کے اندر مالی استطاعت موجود ہے ؟ (حنیف احمد ، وجئے واڑہ)
جواب:۔ خود حج کرنا اس شخص پر فرض ہے ، جس کے پاس سفر کے اخراجات بھی ہوں اور جسمانی طور پر وہ سفر کی صلاحیت بھی رکھتا ہو ، اگر مالی استطاعت ہو؛ لیکن سفر کی طاقت نہیں ، تو اس کے لئے حج بدل کرانے کی گنجائش ہے ، یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بلڈپریشر اور شوگر کے مختلف درجات ہیں اور انسان کی قوتِ مدافعت میں فرق کے لحاظ سے ہر مریض پر اس کا یکساں اثر نہیں ہوتا ہے ؛ اس لئے ایسے مسائل میں معتبر اور دیندار مسلمان ڈاکٹر کی رائے بنیادی اہمیت کی حامل ہے ، اگر وہ سفر کرنے سے روکتے ہوں اور ان کا خیال ہو کہ مستقبل قریب میں مریض سفر کے لائق نہیں ہوسکے گا تو حج بدل کرالینا چاہئے ؛ البتہ اگر بعد میں صحت بحال ہوجائے اور وہ سفر کے لائق ہوجائے تو دو بارہ حج کرنا ضروری ہوگا اور اگر ڈاکٹر کی رائے کے مطابق اس کے صحت مند ہونے کی توقع ہو تو پھر ابھی اسے انتظار کرنا چاہئے ، اگر خدانخواستہ اخیر تک سفر پر قدرت حاصل نہ ہوسکی تو حج بدل کی وصیت کردینی چاہئے ۔ واللہ اعلم ۔
دو ر دراز ملکوں سے میت کی لاش کو منگانا
سوال:۔ ہندوستان سے بڑی تعداد میں لوگ دور دراز کے ملکوں میں مقیم ہیں ؛ تاکہ انہیں بہتر روزگار حاصل ہوسکے ، اب جب وہاں کسی کا انتقال ہوجاتا ہے تو عموماً ہندوستان میں لاش منگائی جاتی ہے اور اس میں کئی کئی دن لگ جاتے ہیں ، مقصد یہ ہوتا ہے کہ لوگ اسے آخری نظر دیکھ لیں اور اس کو اپنے وطن میں دفن ہونے کا موقع مل جائے ، شرعاً اس کی کیا حیثیت ہے ؟ (مصباح الدین ، ٹولی چوکی)
جواب:۔ آخری نظر دیکھنے یا اپنے وطن میں دفن ہونے کی شرعاً کوئی اہمیت نہیں ہے ،مرنے کے بعد اگر اس کو کوئی چیز فائدہ پہونچاسکتی ہے تو وہ دعائے مغفرت اور ایصالِ ثواب ہے ، رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں بہت سے صحابہ دور دراز علاقوں میں شہید ہوئے اور وہیں دفن کردئے گئے ، حضرت عبد الرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہما نے مکہ مکرمہ سے بارہ میل کے فاصلہ پر حُبشی نامی مکان پر وفات پائی ، ان کی نعش مکہ لائی گئی اور وہاں تدفین ہوئی ، جب حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا مکہ تشریف لائیں تو اپنے بھائی کے قبر کی زیارت کی اور فرمایا : اگر میں موجود ہوتی تو جہاں آپ کی وفات ہوئی ، وہیں آپ کی تدفین بھی ہوتی : ’’ واللہ لو حضرتک ما دفنت إلا حیث مت ‘‘ (سنن ترمذی ، کتاب الجنائز ، حدیث نمبر : ۱۰۶۲) غزوۂ احد کے موقع سے بعض لاشیں جنت البقیع کی طرف لے جائی جارہی تھیں ، رسول اللہ ﷺ نے اعلان کرادیا کہ شہداء احد ہی میں دفن کئے جائیں (سنن بیہقی ، عن جابر بن عبد اللہ ، کتاب الجنائز ، حدیث نمبر : ۷۱۶۹) ؛ چنانچہ امام محمدؒ سے منقول ہے کہ جہاں موت ہو ، وہیں مردے کو دفن کردینا چاہئے ، ہاں ، ایک دو میل کے فاصلہ پر نعش لے جائی جائے تو حرج نہیں