کرنا جائز ہے ، جیسے سونے کے زیور ات ؛ البتہ اس طرح سونے کا استعمال جس سے تکبر اور فخر وغرور کا اظہار ہوتا ہو ، جیسے : سونے کے برتن میں کھانا کھانا ، یا سونے کی سرمہ دانی سے سرمہ لگانا وغیرہ ، تو اس طرح پر سونے کا استعمال مردوں کے لئے بھی حرام ہے اور عورتوں کے لئے بھی ؛ البتہ سونے کا پانی چڑھائی ہوئی چیز کا وہ حکم نہیں جو خود سونے کا ہے ؛ چنانچہ فقہاء نے سونے چاندی کے پانی چڑھائے ہوئے برتن کے استعمال کی اجازت دی ہے : ’’ وأما الأوانی المموہۃ بماء الذہب والفضۃ الذي لا یخلص منہ شیء فلا بأس بالانتفاع بہا في الأکل والشرب وغیر ذلک بالإجماع ‘‘ (بدائع الصنائع ، کتاب الاستحسان : ۴؍ ۳۱۷) لہٰذا سونے چاندی کا پانی چڑھائے ہوئے قلم اور گھڑی کا استعمال درست ہے ۔
فرضی بل اور اس کا معاوضہ
سوال:۔ انکم ٹیکس کے معاملے میں بعض دفعہ بل داخل کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے ، ٹیکس دینے والے حضرات کسی دکاندار سے بل بنواتے ہیں اور ان کو تین فیصد یا پانچ فیصد کے لحاظ سے اجرت ادا کرتے ہیں ؛ کیوں کہ جتنی رقم کا بل ہوتا ہے ، اتنی رقم کا ٹیکس بچ جاتا ہے ، کیا اس طرح بل بنوانا اور اس کی رقم ادا کرنا درست ہے ؟ (عبد السبحان ، اکبر باغ)
جواب:۔ جب اس شخص نے مذکورہ تاجر سے وہ سامان خریدا نہیں ہے تو تاجر کا فرضی بل بنانا جھوٹ اور دھوکہ ہے اور اس بل بنانے کے عوض اس شخص کا رقم ادا کرنا رشوت کے حکم میں ہے ؛ اس لئے نہ بل بنانا اور بنوانا جائز ہے اور نہ اس پر رقم کا لینا اوردینا درست ہے ؛ البتہ اگر ٹیکس دہندہ اس تاجر سے واقعۃًاتنی رقم کا کوئی سامان خرید لے اور بِل بنوالے ،جو اس کے کام آئے ، اور پھر دوبارہ قبضہ کرنے کے بعد پانچ فیصد کم قیمت میں اس کے ہاتھ بیچ دے ، نیز اس سامان کو خریدنے کے وقت یہ شرط نہ لگائی گئی ہو کہ ہم اسے کم قیمت میں تمہارے ہی ہاتھ فروخت کردیں گے تو یہ شکل شرعاً درست ہوگی ۔ واللہ اعلم ۔
غیر شرعی لباس فروخت کرنا
سوال:۔ اس زمانہ میں عورتوں کے کپڑوں میں جو بے ستری ہوتی ہے ، ان سے سب لوگ واقف ہیں ، بازو کھلے ہوتے ہیں ، گلا اتنا بڑا ہوتا ہے کہ سینے اور پیٹھ کا حصہ نظر آتا ہے ، کرتے اتنے اونچے ہوتے ہیں کہ پیٹ اور کمر کا حصہ کھل جاتا ہے ، اسکرٹ پہنی جاتی ہے ، جس میں پنڈلیاں کھلی ہوتی ہیں ، ایک مسلمان تاجر کے لئے ایسے کپڑے غیر مسلموں کے ہاتھ بیچنے کا کیا حکم ہے اور مسلمانوں کے ہاتھ بیچنے کی کس حد تک گنجائش ہے ؟ (شفیع الدین ، دلسکھ نگر)
جواب:۔ غیر مسلم حضرات شریعت کے عملی اور فروعی احکام کے مخاطب نہیں ہیں ، جب تک وہ مسلمان نہ ہوجائیں ، دنیا میں شریعت کا ان سے یہ مطالبہ نہیں ہے کہ وہ شریعت کے قوانین پر عمل کریں ؛ اس لئے اگر غیر مسلم حضرات کے ہاتھوں ایسے کپڑے فروخت کئے جائیں تو اس کی گنجائش ہے ؛ چنانچہ فقہاء نے غیر مسلم کے ہاتھ زنار اور مجوسی کے ہاتھ مجوسیوں کی ٹوپی فروخت کرنے کی اجازت دی ہے ، (رد المحتار : ۵؍ ۲۷۷) رہ گئے مسلمان ، تو چوں کہ ایک مسلمان عورت کے لئے اپنے شوہر کے سامنے اس طرح لباس پہننا جائز ہے اور ایسے کپڑوں کا جائز مصرف بھی ہوسکتا ہے ؛ اس لئے وہ اس نیت سے فروخت کرسکتے ہیں کہ یہ اس کو اپنے شوہر کے سامنے پہننا کریں گی ؛ البتہ چوں کہ مسلمان عورتیں ہوں یا غیر مسلم ، اس بات کی توقع رکھنا مشکل ہے کہ وہ لباس کے استعمال میں شوہر اور اجنبی اور محرم وغیر محرم کے درمیان امتیاز قائم رکھ سکیں گی ؛ اس لئے ایسے لباس کا فروخت کرنا کراہت سے خالی نہیں ہوگا ؛ کیوں کہ اس سے معاشرہ میں بے حیائی کو فروغ ہوتا ہے ۔
مارکٹ وغیرہ میں خواتین کے لئے مسجد کی سہولت
سوال:۔ آپ حضرات خواتین کو مسجد میں جانے سے منع کرتے ہیں ، اس کا نتیجہ یہ ہے کہ جب