عورتیں سفر کرتی ہیں یا کسی ضرورت کے لئے بازار جاتی ہیں اورنماز کا وقت ہوجائے تو ان کی نماز قضاء ہوجاتی ہے ؛ حالاں کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں خواتین مسجدوں میں جایا کرتی تھیں ؟ ( آفریدہ تحسین ، بنجارہ ہلز)
جواب:۔ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں خواتین کو مسجد میں آنے کی اجازت تھی ؛لیکن آپ ﷺ نے اس کی حوصلہ افزائی نہیں فرمائی ؛ بلکہ آپ ﷺ کے متعدد ارشادات میں یہ بات موجود ہے کہ عورت کا گھر میں نماز پڑھنا مسجد میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے ؛ اسلئے گو بعض خواتین حضور ﷺ کے ارشاد کو سننے اور تازہ بہ تازہ احکام سے آگاہ ہونے کے لئے مسجد میں جایا کرتی تھیں ؛ لیکن خواتین کی ایک بڑی تعداد گھروں میں بھی نماز ادا کیا کرتی تھی ، جس کا اندازہ حضور ﷺ کے اس ارشاد سے ہوتا ہے کہ اگر گھروں میں عورتیں اور بچے نہ ہوتے تو میں عشاء کی نماز شروع کرتا اور اپنے کچھ نوجوانوں کو حکم دیتا کہ جو لوگ گھروں میں ہیں ان پر آگ لگادیں : ’’ لو لا ما في البیوت من النساء والذریۃ أقمت صلاۃ العشاء وأمرت فتیاني یحرقون ما في البیوت بالنار‘‘ (مسند أحمد ) اس سے معلوم ہوا کہ اگرچہ خواتین کا مسجد میں نماز پڑھنا ناجائز اورحرام نہیں ہے ؛ لیکن ان کے لئے بہتر طریقہ یہی ہے کہ وہ گھر میں نماز پڑھیں ، پھر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ موجودہ زمانہ میں فتنہ کا اندیشہ زیادہ ہے ، مختلف قوموں کے مذہبی مقامات میں جو غیر اخلاقی واقعات پیش آتے ہیں ، وہ کسی صاحب نظر سے مخفی نہیں ہیں ، اگر مسجدوں کے سلسلہ میں یہ احتیاط نہیں برتی گئی تو اندیشہ ہے کہ خدا نخواستہ اسی طرح کی صورت حال مسلم معاشرہ میں بھی پیدا ہوجائے ؛ اس لئے بجا طور پر یہ بات کہی جاتی ہے کہ موجودہ دور میں خواتین کو اپنے گھر میں نماز پڑھنی چاہئے ، ان کا بلا ضرورت مسجد میں نماز ادا کرنا کراہت سے خالی نہیں ہے ؛ لیکن مارکیٹ ، اسٹیشن ، بس اسٹینڈ ، ایرپورٹ اور اس طرح کے عوامی مقامات کے قریب جو مسجدیں ہوں ، ان میں اگر ایک کنارہ پر خواتین نماز پڑھ لیں یا ان مسجدوں میں ایک محفوظ گوشہ خواتین کے لئے بنادیا جائے جس میں پردہ کی مکمل رعایت ہو اور عورتوں کے لئے الگ طہارت خانہ ہو تو یہ بہتر بات ہوگی ؛ تاکہ بہنوں کی نمازیں قضاء نہ ہونے پائیں ، ایسی جگہوں میں مسجدوں میں خواتین کے لئے بھی نماز کا انتظام رکھنا بہتر ہوگا ۔ واللہ اعلم بالصواب
خطبہ کے درمیان نماز کی قضا
سوال:۔ خطبہ کے درمیا ن تلاوت اور تحیۃ المسجد وغیرہ کی تو ممانعت ہے ؛ لیکن اگر کسی کی نماز فوت ہوگئی ہو تو کیا وہ اس وقت میں قضا کرسکتا ہے ؟ (احسان الدین ، بنگلور)
جواب:۔ خطبہ کے درمیان ممانعت نفل اعمال کی ہے ، جیسے تلاوت ، صلاۃ وسلام ، نفل نماز ، فرض عبادت کی نہیں ہے ؛ اس لئے اگر کسی شخص کے ذمہ نماز کی قضا باقی ہو اور وہ خطبہ کے دوران اس نماز کو ادا کرلے تو یہ درست ہے ؛ بلکہ اگر وہ صاحب ترتیب ہو اور فجر کی نماز اس کے ذمہ باقی ہو تو اس پر خطبہ کے درمیان بھی اس نماز کی قضاء کرلینا واجب ہے : ’’ یکرہ الصلاۃ نفلاً عند الخطبۃ ، ولا یکرہ قضاء الفائتۃ ؛ بل یجب علی صاحب الترتیب أن یقوم ویقی مافاتہ أولاً، ثم یصلی الجمعۃ ، کذا فی مجمع البرکات‘‘ (نفع المفتی والسائل از مولانا عبد الحی لکھنوی ، ص: ۳۵۱) البتہ اگر صاحب ترتیب نہ ہو تو پھر بہتر صورت یہی ہے کہ قضاء نمازیں بعد میں ادا کرے ؛ تاکہ خطبہ کے ادب کی رعایت ہو اور دوسرے دیکھنے والوں کو یہ وہم نہ ہو کہ شاید یہ نفل نماز ادا کررہا ہے ۔(بصیرت فیچرسروس)
خا لی مکا ن میں بلا اجا زت دا خل ہو نا
سو ال :۔ حامد اپنے دوست راشد کے گھر میں بلا اجازت داخل ہو گیا، ان دونوں کے درمیان کوئی رشتہ واری نہیں ہے ؛البتہ پکی دوستی ہے، راشد کو اعتراض ہے کہ اس کو بلا اجازت میرے