ملفوظات حکیم الامت جلد 24 - یونیکوڈ |
میرے والد ماجد کی ایک حکایت از مولانا محمد یعقوب صاحبؒ حضرتؒ کو اپنے اساتذہ میں سب سے زیادہ گہرا تعلق حضرت مولانا محمد یعقوب صاحبؒ سے تھا اور میرے والد ماجد مولانا محمد یسین صاحبؒ بھی حضرتؒ کے ہم سبق حضرت مولانا محمد یعقوب صاحبؒ کے شاگرد تھے اور دوسرے شاگردوں سے زیادہ خصوصیت رکھتے تھے ۔ والد ماجد نے اپنا ایک واقعہ سنایا تھا جس کو حضرتؒ نے بھی بارہا اپنی مجالس میں ذکر فرمایا ۔ واقعہ یہ ہے کہ ایک مرتبہ حضرت مولانا محمد یعقوب صاحبؒ دیر تک مصروف گفتگو رہے ۔ والد ماجد اس زمانے میں پچھلے بزرگوں کے حالات کا مطالعہ کیا کرتے تھے اور حضرت مولانا محمد یعقوب صاحبؒ اگرچہ صاحب جلال بزرگ مشہور تھے مگر والد صاحب پر خاص عنایات تھیں اس لئے بے تکلف ایک سوال پیش کر دیا کہ بزرگان سلف میں اس کا بڑا اہتمام تھا کہ کلام کم کیا جائے ۔ زیادہ گفتگو سے منع فرماتے تھے ۔ اس کی حد کیا اور اسکا کیا مطلب ہے ۔ حضرت نے بڑی شفقت سے فرمایا کہ اصل مقصد تو نا جائز کلام سے بچنا ہے مگر بعض اوقات نا جائز سے بچنے کے لے بطور علاج کے جائز و مباح کلام کو بھی ترک کرنا پڑتا ہے کیونکہ اس کے بغیر نفس صرف جائز کلام پر قناعت نہیں کرتا ۔ شدہ شدہ حرام و نا جائز میں مبتلا ہو جاتا ہے ۔ والد صاحب ایک کتاب ہاتھ میں لئے ہوئے تھے اس کو اپنے ہاتھ میں لے کر اس کے ایک ورق کو موڑ دیا ۔ پھر والد صاحب کو دیا کہ اس مڑے ہوئے ورق کو سیدھا کرو ۔ والد صاحب نے سیدھا کر دیا مگر وہ پھر مڑ گیا اور بار بار ایسا کرنے پر بھی سیدھا نہیں ہوا تو حضرت مولانا نے پھر کتاب اپنے ہاتھ میں لیکر اس مڑے ہوئے ورق کو دوسری طرف موڑ دیا اور پھر والد صاحب کو دیا کہ اب سیدھا کرو ۔ والد صاحب نے اس کو سیدھا کیا تو وہ سیدھا ہو گیا اور اپنی جگہ ٹھہر گیا ۔ یہ محسوس مثال دکھلانے کے بعد فرمایا کہ صوفیائے کرام جو مجاہدات کراتے ہیں اس کی یہی مثال ہے کہ اصل مقصود تو اعتدال پر قائم رہنا ہے لیکن خم خوردہ نفس اعتدال پر اس وقت تک نہیں آتا جب تک اس کو بالکل دوسری طرف نہ