ملفوظات حکیم الامت جلد 24 - یونیکوڈ |
کے سواء نہیں کہ علماء خود ان فنون سے واقف ہوں تا کہ تعلیم یافتہ لوگوں کے شبہات کا جواب ان کی نفسیات کے مطابق دے سکیں ۔ اور ان کی نظروں میں کم حیثیت نہ سمجھے جائیں ۔ یہ فنون خود کوئی دین نہیں ہیں مگر ان سے دین کی خدمت بھی لی جا سکتی ہے ۔ حال میں ایک صاحب نے قرآن کریم کی دو آیتوں کے ظاہری تعارض کے متعلق مجھ سے سوال کیا تو ریاضی کی مدد سے ہی اس کا جواب دیا اور انکی تسلی ہو گئی ۔ سوال یہ تھا کہ قیامت کے دن کا طویل ہونا ایک آیت میں بقدر ایک ہزار سال کے آیا ہے ۔ دوسری آیت میں خمس الف سنۃ یعنی پچاس ہزار سال کے برابر آیا ہے اور دونوں میں بڑا فرق ہے ۔ حضرتؒ نے ریاضی کے اصول پر فرمایا کہ اس میں کیا بعد ہے کہ ایک افق کے اعتبار سے ایک ہزار سال کے برابر ہو اور دوسرے افق کے اعتبار سے پچاس ہزار سال کے برابر ۔ اس کی پوری تفصیل بیان القرآن میں لکھ دی گئی ہے ۔ ( ملفوظ 19 شعبان 1348 ھ ) عبادت کے اظہار اور اخفاء میں اعتدال فرمایا کہ اپنی نفلی عبادات اور دینی کمالات کا اظہار جو عموما نفس کے تقاضا سے ہوتا ہے اس کا مذموم ہونا تو سبھی جانتے ہیں ۔ بہت زیادہ اخفاء کا اہتمام بھی کچھ اچھا نہیں کیونکہ اس میں بھی غیر اللہ کی طرف ایک گو نہ التفات تو پایا جاتا ہے اگرچہ منفی انداز سے سہی ۔ محققین کا مذاق یہ ہے کہ اپنے کام سے کام رکھے نہ اظہار کا قصد کرے نہ اخفاء کا ۔ صوفیائے کرام میں جو ایک فرقہ ملامتیہ کے نام سے معروف ہے ۔ در حقیقت ان کا مقصد اخفاء اعمال کا اہتمام تھا نہ کہ ارتکاب معاصی کا ۔ عوارف میں ملامتیہ کی یہی تعریف لکھی ہے ۔ خواب اور تعبیر خواب ایک صاحب نے خط میں اپنا خواب لکھا تھا ۔ حضرت نے جواب میں تحریر فرمایا ۔ " جاگنے کی باتیں لکھو ، خوابوں کے پیچھے مت پڑو ،، پھر فرمایا اگر کوئی شبہ کرے کہ رسول اللہ ؐ تو خواب سننے اور تعبیر دینے کا اہتمام فرماتے