ملفوظات حکیم الامت جلد 24 - یونیکوڈ |
میرے صبر نے قتل کر دیا ۔ اس لئے ایک نیم مجذوب نے یہ نصیحت کی کہ جب تمھیں کوئی برا کہے تو نہ انتقام لو اور نہ صبر کرو ۔ مطلب یہ ہے کہ پورا انتقام نہ لو اور پورا صبر بھی نہ کرو کچھ کہہ لو تا کہ وہ قہر خدا وندی سے بچ جائے ۔ شیخ العبرب والعجم مولانا دیو بندی حضرت قدس سرہ کی تواضع اور مہمان نوازی کی ایک عجیب حکایت مولوی محمود صاحب رامپوری نے سنائی کہ ایک مرتبہ ہمارا ایک مقدمہ دیو بند میں در پیش تھا ۔ اس لئے رامپور سے دیو بند آئے تو ایک بنیہ ہندو بھی ہمارے ساتھ ہو لیا ۔ اس کو بھی کوئی ایسا ہی کام دیو بند میں تھا جب شہر میں پہنچے تو بنیہ نے کہا کہ جہاں آپ لوگ ٹھہرو میرا بھی وہیں رہنے کا انتظام ہو جائے تو اچھا ہے ۔ مولوی محمود صاحب نے فرمایا کہ ہم حضرت شیخ الہندؒ کے مکان پر مہمان ہوئے بنیہ کو بھی یہیں ٹھہرا دیا ۔ جب رات کو سب سو گئے تو میں نے دیکھا کہ مولانا شیخ الہندؒ بنیہ کے پاس گئے اور آہستہ آہستہ اس کے پاؤں دبانا شروع کئے ۔ میں نے دیکھا تو عرض کیا کہ حضرت یہ کیا ہے ؟ اگر یہی کرنا ہے تو اس خدمت کے لئے میں حاضر ہوں فرمایا نہیں یہ تو میرا مہمان ہے اس کا اکرام و خدمت میرے ذمہ ہے ۔ چھینک لینا اور اس کا جواب مسئلہ یہ ہے کہ اگر کوئی مسلمان چھینک لے اور الحمد للہ کہے تو سننے والوں پر مثل اسلام کے یر حمک اللہ کہہ کہ اس کا جواب دینا واجب ہے ۔ اس لئے اس میں کلام ہے کہ چھینکنے والے کو الحمد للہ با آواز بلند کہنا بہتر ہے تا کہ لوگ یرحمک اللہ کہہ کر جواب دیں تو ان کو بھی ثواب ملے ۔ اس کے لئے بھی دعا ہو ۔ علامہ شامیؒ نے اسی کو ترجیح دی ہے حضرتؒ نے فرمایا کہ جس جگہ لوگ اپنے کاموں میں مشغول ہوں اور یہ خطرہ ہو کہ ہم نے با آواز بلند الحمد للہ کہا تو ان کو جواب دینے میں تکلیف ہو گی ۔ ایسی صورت میں بہتر یہ ہے کہ بلند آواز سے