ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2012 |
اكستان |
|
یہی حال اِن ہوس پرستوں کے خلوت خانوں کا ہے اِن کی بوڑھیاں اَور بوڑھے ہوست پرستی میں جوانوں کو پیچھے چھوڑے ہوئے ہیں ۔ ''اَخباری اِطلاع کے مطابق سابق اَمریکی صدر غالبًا سینئر بش اپنے سرکاری دورۂ برطانیہ کے دَوران بھری مجلس میں ملکہ برطانیہ کو آنکھیں مارتا رہا بوڑھی ملکہ عالی ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اِ س کمینہ حرکت سے لطف اَندوز ہوتی رہی۔'' کمّی کمینوںکی خوش اَخلاقی اَور قوتِ برداشت سے مراد اِن جیسی حرکات ہی ہوتی ہیں جن کی وہ دُوسروں سے بھی توقع رکھتے ہیں۔ اِنسانی شکل کے یہ خنزیر اَخلاقیات جیسی صفات سے ایسے ہی ناواقف ہیں جیسے خود خنزیر ،اِسی لیے ناموس ِ رسالت ۖ کی توہین پرغیرت مند مسلمانوں کا فطری ردِ عمل اِن کو قوتِ برداشت میں کمی معلوم ہوتاہے ۔ اُن کی کتابیں اپنے ہی نبیوں کی توہین سے بھری پڑی ہیں کبھی اُن پاکیزہ ہستیوں پر بدکاری کا اِلزام دَھرتے ہیں تو کبھی نشہ میں مستی کا، کسی کو اللہ کی بیوی اَور کسی کو بیٹا بتلاتے ہیں کہیں نبیوں اَور اللہ میاں کی کشتی کراتے ہیں اِس کے علاوہ اَور بہت سے اَفعالِ بد اُن کی طرف منسوب کرنے کو یہ عالمی مسخرے کچھ برا نہیں جانتے ۔ اِن سے بھی بد تر حال یہودیوں کاہے اُنہوں نے نہ صرف یہ کہ اِس قسم کی خرافات اپنے ہی نبیوں کی طرف منسوب کیں بلکہ اُن کو قتل تک کر ڈالا اِس سے بڑھ کر کسی قوم کی کیا بدنصیبی ہو سکتی ہے کہ وہ اپنے ہی نبیوں کے خون سے اپنے ہاتھوں کو رنگ ڈالے۔ عیسائیوں اَور یہودیوں کا معاشرہ فطری طور پر گالی گلوچ کو برانہیں جانتا،عزت و ناموس جیسے اَعلیٰ خصائص سے یہ لوگ ناواقف ہوتے ہیں اِسی لیے اَنبیاء علیہم السلام کی شان میں اُن کی طرف سے مسلسل گستاخیوں کے جواب میں ہونے والے پر اُمن اِحتجاجوں کو یہ کبھی خاطر میں نہیں لاتے بلکہ اُلٹا یہی پروپیگنڈا کرتے ہیں کہ مسلمان اِنتہا پسند ہیں اِن میں برداشت کا مادّہ کم ہے۔ اِس کی مثال بالکل ایسی ہے جیسے کوئی غنڈہ شریف اِنسان کو بے آبرو کرے اَور اُس کی فریاد اَور اِنصاف طلبی کو یہ کہے کہ اِس