ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2012 |
اكستان |
|
والے زائد منافع میں سے واپس ہوگا یا اِنتہائے مدت پر اَصل جائیداد کی واپسی خرید کے وقت اُس کی قیمت میں سے اَداہوگا۔ (٣) مدیر کی جانب سے یہ لازمی وعدہ کہ وہ اِن اَشیاء کو (جن کی نمائندگی صکوک کرتے ہیں اُس قیمت ِ اسمیہ پر خرید لے گا جس پر صکوک جاری کیے گئے تھے۔ واپس خرید کے دِن بازاری قیمت پر نہ خریدے گا۔ مولانا تقی عثمانی مدظلہ لکھتے ہیں : لائی بور کی شرح سے زائد واقعی نفع مدیر کو اِس بنیاد پر دیناکہ وہ اُس کی اچھی کار گردگی کا محرک ہوگا اِس کے جواز کی دلیل وہ ہے جو بعض فقہا نے ذکر کی اَور کہا کہ یہ وکالت اَور دلالی میں جائز ہے۔ اِس کو اِمام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ اَور اِبن سیرین رحمہ اللہ سے تعلیقًا ذکر کیا ۔ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ لَا بَأْسَ اَنْ یَّقُوْلَ مَعَ ھٰذَا الثَّوْبِ فَمَا زَادَ عَلٰی کَذَا وَکَذَا فَھُوَ لَکَ۔ وَقَالَ ابْنُ سِیْرِیْنَ اِذَا قَالَ بِعْہُ بِکَذَا فَمَاکَانَ مِنْ حَرَجٍ فَھُوَ لَکَ اَوْ بَیْنِیْ وَ بَیْنَکَ فَلَا بَأْسَ بِہ ۔ ''اِبن عباس رضی اللہ عنہ نے فرما یا کہ یہ کہنے میں کچھ حرج نہیں ہے کہ یہ کپڑے (اِتنے میں) فروخت کرو اِس سے زائد پر فروخت کرو گے تو زائد نفع تمہارا ہوگا اَور اِبن سیرین رحمہ اللہ نے فرمایا کہ جب آدمی یہ کہے کہ اِس کپڑے کو اِتنے میں فروخت کرو اِس پر جو زائد نفع ملے وہ سب تمہارا ہوگا یا وہ میرے اَور تمہارے درمیان نصف نصف ہوگا تو اِس میں کچھ حرج نہیں ہے۔ '' اِبن قدامہ رحمہ اللہ اپنی'' کافی'' میں لکھتے ہیں : وان قال بع ھذا بعشرة فمازاد فھو لک صح ولہ الزیادة لان ابن عباس کان لایری بذالک بأسا ۔