ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2012 |
اكستان |
|
کی طرف روانہ کر دیا جائے۔ حضرت صدیق رضی اللہ عنہ نے اُس لشکر کی روانگی کا حکم دے دیا مگر تمام صحابہ رضی اللہ عنہم اِس معاملہ میں حضرت صدیق رضی اللہ عنہ کی رائے کے مخالف تھے، کہتے تھے کہ ایسے پر آشوب وقت میں جبکہ اَندرونِ ملک میں متعدد قبائل سے بغاوت کے شعلے بلند ہو رہے ہیں لڑائی میں پیش ِ قدمی کرنا بالفعل مناسب نہیں حتی کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں قتال کے سب سے زیادہ حامی حضرت عمر رضی اللہ عنہ اَور حضرت علی رضی اللہ عنہ ہو سکتے تھے مگر یہ دونوں بھی حالات کی نزاکت سے متاثر تھے اَور لڑائی کو مصلحت نہ سمجھتے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ یا خلیفۂ رسول اللہ! یہ سختی کا وقت نہیں اِس وقت تالیف سے کام لیجئے۔ حضرت عمررضی اللہ عنہ کی اِس بات پر آپ رضی اللہ عنہ کو غصہ آگیا اَور فرمایا اَجَبَّار فِی الْجَاھِلِیَّةِ وَخَوَّار فِی الْاِسْلَامِ یعنی اے عمر تم جاہلیت میں تو بڑے تند خو تھے مگر اِسلام میں آکر ایسے نرم ہو گئے۔ سنو! تَمَّ الدِّیْنُ وَانْقَطَعَ الْوَحْیُ اَیُنْقَصُ وَاَنَا حَیّ دین کامل ہوچکا وحی بند ہو چکی کیا یہ ہو سکتا ہے میری زندگی میںدین ناقص ہوجائے ؟ اَللّٰہُ اَکْبَرُ ! حضرت صدیق رضی اللہ عنہ کو دین ِ اِسلام پر کیسا دعوی تھا معلوم ہوتا ہے کہ دین ِپاک کے ایک اَکلوتے وارث وہی تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت صدیق رضی اللہ عنہ کی یہ بات سن کر میں تو سمجھ گیا کہ اللہ نے اِن کا سینہ کھول دیا ہے۔ حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے بھی اِسی قسم کے گفتگو حضرت صدیق رضی اللہ عنہ سے ہوئی مگرحضرت صدیق رضی اللہ عنہ نے کسی کی کچھ نہ سنی اَور کچھ مخالفت و ملامت کی کچھ پرواہ نہ کی اَور حکم دیا کہ میری اُونٹنی لاؤ میں خود قتالِ مرتدین کے لیے جاتا ہوں اَور فرمایا کہ اُسامہ رضی اللہ عنہ کا لشکر بھی (بقیہ حاشیہ صفحہ ٣٢ )نتیجہ یہ ہوا کہ خدا نے مسلمانوں کو فتح دی رُومیوں کو شکست ہوئی مگر شرجیل اَور اُس کا ملک صحیح و سالم رہا، لہٰذا اِنتقام پورا نہ ہوا اِس غزوہ کا نام ''غزوہ موتہ'' ہے (موتہ بضم میم ملک ِ شام کا ایک شہر ہے جو شرجیل کی حکومت میں تھا) اِسی غزوۂ موتہ کی کمی پوری کرنے کے لیے اُسامہ کا لشکر بھیجنے کا حکم آپ ۖ نے دیا۔ حضرت اُسامہ حضرت زید اَوّلین سردار غزوۂ موتہ کے فرزند ہیں۔