ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2012 |
اكستان |
|
خواص کے نزدیک کرامت بھی عنایت ِاِیزدی ہے اِس لیے کہ جب اللہ تعالیٰ اَپنے کسی بندے سے راضی اَور خوش ہوتا ہے تو اُس پر اَپنی عنایات کی بارش شروع کردیتا ہے ۔اَور چونکہ اَولیاء اللہ کے قلوب مشاہدۂ حق اَور ذکر حق میں ہمہ وقت مصروف اَور مشغول ہوتے ہیں لہٰذا ظاہر ہے کہ اُس قلب میں جس کی یہ کیفیت اَور حالت ہوگی عام اِنسانوں سے زیادہ اَوصاف اَور قدرت ِ خدا وندی کا مظہر ہوگا اِس کی مثال بالکل ایسی ہی ہے کہ جس طرح سے آتشی شیشہ ہوتا ہے کہ جب سورج کے سامنے آتا ہے تو وہی کمالات حاصل کر لیتا ہے جو سورج میں ہوتے ہیں لہٰذا اگر رُوئی کو اُس کے مقابل لاکر رکھ دیا جائے تو جلا ڈالے گا اَور اگر آنکھوں کے سامنے کر دیا جائے تو پھاڑ ڈالے گا کیونکہ سورج کے اَوصاف اپنے اَندر جذب کیے ہوتا ہے اَور سورج میں چونکہ جلال کا نمونہ زیادہ ہے اِس وجہ سے جلالیت زیادہ ظاہر ہوتی ہے۔ اَور اللہ تعالیٰ چونکہ تمام اَوصافِ کمالیہ کا منبع و مخرج و معدن ہے اِس لیے اَولیاء اللہ کے قلوب کو مشاہدہ ٔ حق میں مستغرق ہونے کی وجہ سے بہت سی صفات اَور کمالات حاصل ہوجاتے ہیں اِسی وجہ سے اَولیاء اللہ معدنِ اِسرار اِلٰہی ہوتے ہیں۔ لہٰذا جب اُن سے اِن اِسرار میں سے کسی چیز کا ظہور ہوتا ہے تو خلاف ِ اَدب سمجھتے ہوئے ندامت ظاہر کرتے ہیں کہ یہ بات اَمانت اَور رَاز داری کے خلاف ہے، یہی وجہ ہے کہ اِمام اَبو حنیفہ نے اللہ تعالیٰ سے دُعا کی تھی کہ اِن کو جو کشف عنایت کیا گیا ہے سلب کر لیا جائے۔ یہی خرقِ عادات جب کسی جوگی یا کافر غیرمتبع شریعت سے ظاہر ہوتے ہیں تواُس کو ''اِستدراج'' کہا جاتا ہے اُس میں نورانیت نہیں بلکہ ظلمت ہوتی ہے اَور شیطان کا بہت دخل ہوتا ہے گویا کہ یہ مشاہدہ شیطان سے حاصل ہوتا ہے۔ وَ نَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْھَا کرامت ِحسی یا خرقِ عادات جن کا ظہور اَولیاء اللہ سے وقتًا فوقتًا ہوتاہے بہت طرح کی ہوتی ہیں جیسے اِیجادِ معدوم اَور اعدامِ موجود اَور کسی مخفی چیز کو ظاہر کردینا اَور ظاہر کو مخفی کردینا، مجیب الدعا ہونا، مسافت ِ بعیدہ کو تھوڑے وقت میں طے کردینا یا طے کرادینا، مغیبات کا علم ہوجانا اَور اُس کی اِطلاع کر