ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2012 |
اكستان |
|
ایک صاحب ١ وہ تو بتاتے تھے کہ یہ بھی نہیں ہوتا کہ جو فائل ہے اُس کے لیے اَلگ چپڑاسی PEONہو پہنچانے کے لیے یہاں سے وہاں بلکہ جب اَفسر کے پاس دستخطوں کی ضرورت ہوگی تو نیچے والا چلا جائے گا وہاں اَور جب وہ دستخط کر لے گا تو خود ہی پہنچا جائے گا یہاں ،یہ ضروری نہیں ہے کہ یہی جائے وصول کرنے دستخط ہوگئے ہوں گے اَب میں جا رہاہوں یا کھڑا رہے یا کچھ ہو بلکہ جب وہ دستخط کر لے تو قاعدہ یہ ہے کہ وہ خود پہنچائے حالانکہ ہے وہ اُس کا اَفسر۔ تو ایک وہاں تکبر نہیں ہے سرے سے عرب کے لوگوں میں ،خال خال کوئی ہوجائے آدمی تو وہ اَپنی ذات کی بات ہے اُس کی، عمومًا یہ بات نہیں ہے۔ اَور دُوسرے'' شرک'' نہیں ہے دونوں چیزوں سے وہ خالی ہیں۔ تو ز بان پر کنٹرول کرنا نہ کرنا آپ کی سمجھ میں نہیں آسکتا کہ کیا فائدہ ہے کیونکہ آ پ جو پلے بڑھے ہیں یا دیکھا ہے ہم نے معاشرہ وہ دیکھا یہی ہے کہ گالیاں دے دیتے ہیں ،ماں باپ اَولاد کو دیتے رہتے ہیں، اُستاد شاگردوں کو دیتے رہتے ہیں، کارخانوں میں دیتے ہیں، ٹرینینگ میں دیتے ہیں، تو یہ لوگ ایسے پیدا ہوئے کہ جن میں غیرت کی کمی ہے کوئی کچھ کہہ دے تو اِنہیںپروا ہی نہیں ہوتی جو آدمی اِن چیزوں کاعادی ہو اُسے گالی پڑ جائے تو وہ کہے گا کیا بات ہوئی گالی ہی تو دی تھی لیکن اگر گالی کا عادی نہ ہو تو اُس کو رات کو نیند نہیں آئے گی کہ میرے ساتھ یہ حادثہ گزرا ہے کہ ایسی بات کیوں ہوئی، زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے تو ہم یہ سمجھتے ہیں کہ زبان کوئی چیز نہیں ہے خاص۔ مگرآقائے نامدار ۖ نے فرمایا کہ اِس پر تو بڑا مدار ہے اَور ضعیف آدمی قوی آدمی کو تکلیف پہنچا سکتا ہے زبان سے گو ہاتھ سے نہ پہنچا سکے اَور زیادہ کام جو ہوتے ہیں ہاتھ سے نہیں ہوتے زبان سے ہوتے ہیں۔ ١ غالبًا یہ مرحوم معزالدین اَحمد صاحب تھے جو عراق میں پاکستان کے کئی برس سفیر رہے، حضرت سے قلبی عقیدت رکھتے تھے۔ جب بھی پاکستان آتے تو حضرت کی خدمت میں حاضری دیتے اَور عراق تشریف لانے کی پرزور دعوت بھی دیتے ۔ محمود میاں غفرلہ