ماہنامہ انوار مدینہ لاہور فروری 2010 |
اكستان |
|
یہ لوگ فکرِ ولی الٰہی کے وارث چلے آرہے تھے اُنہوں نے مسلمانوں کے لیے ایسا فارمولا ترتیب دیا کہ جس کی رُو سے مسلمان پورے ہندوستان میں ایک مؤثر طاقت بن کر رہیں۔ جیساکہ پہلے عرض کیا جا چکا ہے کہ اِن حضرات کے پیش نظر پورے ہندوستان کے مسلمانوں کی فلاح کا مسئلہ تھا۔ وہ کہتے تھے کہ مسلم اکثریت والے صوبوں میں مسلمانوں کی خود مختار ریاست بن جانے سے ریاست نہایت کمزور ہوگی کیونکہ اُس مسلم ریاست میں مسلمان ساڑھے پچپن فیصدی اَور غیر مسلم ١ ساڑھے چوالیس فیصدی ہوں گے جو مسلم ریاست میں کسی بھی وقت ڈیڈ لاک پیدا کر سکتے ہیں وہ کمزور اقلیت نہ ہوں گے۔ اَور ہندوستان کے باقی صوبوں میں مسلمان صرف گیارہ فیصدی رہ جائیں گے جو بہت کمزور اقلیت ہوگی، اپنا تحفظ نہ کر سکے گی۔ لہٰذا خودمختار ریاست سے متوقع فائدہ نہ ہوسکے گا اَور ہندوستان میں اَقلیت کو شدید نقصان اُٹھانا پڑے گا۔ اِس لیے بہتر صورت یہ ہے کہ مسلم اَکثریت والے صوبوں میں مذہبی تحفظ کی مضبوط اَوردُور رَس شکلیں منظور کرائی جائیں۔ یہ اِجمال ہے اَور اُن کے فارمولے کی تفصیل آگے آرہی ہے۔ حضرت مولانا حفظ الرحمن صاحب رحمة اللہ علیہ ناظم ِ اعلی مرکزیہ جمعیة علماء ِہند نے اپنے ایک مضمون کے آخر میں زعمائے مسلم لیگ کو مل کر بیٹھنے اَور غور و فکر کرنے کی دعوت دی ہے وہ فرماتے ہیں : صحیح طریقہ کار آخر میں بصد عجز واِلحاح پاکستانی اَور لیگی حضرات کی خدمت میں گذارش کرتا ہوں کہ صحیح طریق ِکار وہ نہیں ہے جو مسلم لیگ کے قائد اعظم نے اختیار کر رکھا ہے۔ بلکہ مسلم مفاد کے لیے سب سے بہتر طریق ِکار یہ ہے کہ تمام مسلم جماعتیں پارٹی بازی یاجماعتی برتری کے غیر اِسلامی تصور سے بالا تر ہوکر ایک جگہ بیٹھیں اَور پھر دیانت و سنجیدگی کے ساتھ تمام پیش کردہ مسلم اِ سکیموں پر غور کریں تاکہ سب مسلمان ایک نقطے پر جمع ہوکر متفقہ طور سے ایک مُسلّم مطالبہ کانگریس کے سامنے پیش کر سکیں اَور کسی جماعت اَور کسی پارٹی کو اِس سے اِختلاف نہ ہو۔ ١ مشرقی پنجاب سمیت پاکستان ہوتا اَور نقل ِآبادی نہ ہوئی ہوتی تو پاکستان میں غیر مسلموں کی تعدادبہت زیادہ ہوتی۔