ماہنامہ انوار مدینہ لاہور فروری 2010 |
اكستان |
|
دینی مسائل ( اَولاد کے حلالی ہونے کا بیان ) مسئلہ : جب کسی شوہر والی عورت کے اَولاد ہوگی تو وہ اُسی شوہر کی اَولاد کہلائے گی ۔کسی پر یہ شبہہ رکھنا کہ یہ بچہ اِس کے شوہر کا نہیں ہے بلکہ فلانے کا ہے درست نہیںاور اِس بچہ کو حرامی کہنا درست نہیں ۔اگر اسلام کی حکومت ہوتوایسا کہنے والے کو کوڑے مارے جائیں گے ۔ مسئلہ : حمل کی مدت کم سے کم چھ مہینے ہے اَور زیادہ سے زیادہ دو برس یعنی کم سے کم چھ مہینے بچہ پیٹ میں رہتا ہے پھر پیدا ہوتا ہے ۔چھ مہینے پہلے صحیح و سالم بچہ پیدا نہیں ہوتا اور زیادہ سے زیادہ دو برس پیٹ میں رہ سکتا ہے اِس سے زیادہ پیٹ میں نہیں رہ سکتا۔ مسئلہ : شریعت کا قاعدہ ہے کہ جب تک ہو سکے تب تک بچہ کو حرامی نہ کہیں گے جب بالکل مجبوری ہو جائے تب حرامی ہونے کا حکم لگائیں گے اَور عورت کو گناہ گار ٹھہرائیں گے ۔ مسئلہ : کسی نے اپنی بیوی کو طلاق ِرجعی دے دی پھر دو سال سے کم میں عورت کے ہاں بچہ پیدا ہوا تو بچہ اِسی شوہر کا ہے اِس کو حرامی کہنا درست نہیں ۔ اگر دو سال سے ایک دن بھی کم ہو تب بھی یہی حکم ہے ۔ ایسا سمجھیں گے کہ طلاق سے پہلے کا حمل ہے اَور دو برس تک بچہ پیٹ میں رہا اوراَب بچہ پیدا ہونے کے بعد اُس کی عدت ختم ہوئی اَور نکاح سے الگ ہوئی ۔ہاں اگر وہ عورت اِس جننے سے پہلے خودہی اقرار کر چکی ہو کہ میری عدت ختم ہو گئی تو مجبوری ہے اَب یہ بچہ حرامی ہے الّا یہ کہ اقرار سے چھ مہینے کے اَندر بچہ پیدا ہوا ہو کیونکہ اُس وقت معلوم ہوا کہ اِس کا اقرار غلط تھا۔ بلکہ جس عورت کو طلاق ِرجعی ملی ہو اُس کے یہاںاگر دو برس کے بعد بچہ ہوا اَور ابھی تک عورت نے اپنی عدت ختم ہونے کا اقرار نہیں کیا ہے تب بھی وہ بچہ اِسی شوہر ہی کا ہے چاہے جتنے سال بعدہوا ہو اَور ایسا سمجھیں گے کہ طلاق دے دینے کے بعد عدت میں صحبت کی تھی یعنی رجوع کر لیاتھا ۔ اس لیے وہ عورت اَب بچہ پیدا ہونے کے بعد اُسی کی بیوی ہے اور دونوں کا نکاح نہیں ٹوٹا ۔ ہاں اگر مرد کا بچہ نہ ہو تو وہ کہہ دے کہ میرا نہیں ہے اَور جب اِنکار کرے گا تو لعان کا حکم ہو گا ۔