ماہنامہ انوار مدینہ لاہور فروری 2010 |
اكستان |
|
میں خوب لپٹ جانے کے) تمہارا پردہ ہم سے اِس طرح نہیں ہوتا ہے کہ ہم یہ بھی نہ پہچان سکیں کہ یہ کون ہیں، اَب تم غور کر لو کہ کیسے باہر نکلتی ہو۔ یہ سن کر حضرت سودہ رضی اللہ عنہا واپس لوٹ آئیں اَور آنحضرت ۖ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا کہ یا رسول اللہ ۖ میں قضائے حاجت کے لیے نکلی تھی کہ راستہ میں عمر رضی اللہ عنہ مل گئے اَور اُنہوں نے ایسا ایسا کہا۔ اُس وقت آنحضرت ۖ میرے گھر میں موجود تھے۔ رات کا کھانا تناول فرما رہے تھے اَور ہاتھ مبارک میں ہڈی تھی جس میں سے گوشت چھڑا کر کھانے میں مشغول تھے۔ اُسی وقت اللہ تعالیٰ نے وحی نازل فرمائی اَور آپ ۖنے فرمایا کہ تم کو قضائے حاجت کے لیے نکلنے کی اجازت (اللہ کی طرف سے ) دے دی گئی۔ نزولِ وحی کے وقت وہ ہڈی آپ ۖ کے مبارک ہاتھ میں رہی۔ دونوں روایتوں کو ملا کر معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت سودہ رضی اللہ عنہا کو ٹوک کر پردہ کا حکم نازل فرمایا اَور اِس کے بعد پھر زیادہ اہتمام کے لیے یہ بھی چاہتے تھے کہ قضائے حاجت کے لیے ازواجِ مطہرات جنگل نہ جائیں لیکن اللہ تعالیٰ نے ضرورت کی وجہ سے قضائے حاجت کے واسطے جنگل جانے کی اجازت دے دی۔یہ اُس وقت کی بات ہے جب گھروں میں بیت الخلاء نہیں بنے تھے۔ اِس کے بعد جب بیت الخلاء گھروں میں بن گئے تو جنگل جانا موقوف ہوگیا اَور پردہ کا حکم بھی سب عورتوں کے لیے نافذ کردیا گیا۔ وفات : صاحب الا ستیعاب لکھتے ہیں کہ حضرت سودہ رضی اللہ عنہا کی وفات حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت میں ہوئی اَور یہی الا صابہ میں ابن ابی خیثمہ سے نقل کیا ہے اَور لکھا ہے کہ : وَیُقَالُ مَاتَتْ سَنَةَ اَرْبَعٍ وَّخَمْسِیْنَ وَرَجَّحَہُ الْوَاقِدِیُّ (الاصابہ)یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اِنہوں نے ٥٤ھ میں وفات پائی اَور واقدی نے اِس قول کو ترجیح دی ہے۔ حافظ ابن کثیر نے بھی ابن جوزی کے قول پر اعتماد کرتے ہوئے اِن کی وفات٥٤ھ ہی ذکر کی ہے اَور آخر میں ابن خیثمہ کا قول بھی نقل کر دیا ہے کہ : تُوُفِّیَتْ فِیْ اٰخِرِ خِلَافَةِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ ۔ وَاللّٰہُ تَعَالٰی اَعْلَمُ ۔