ماہنامہ انوار مدینہ لاہور فروری 2010 |
اكستان |
|
مطابق گھر میں بیٹھوں گی۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : مَا مِنَ امْرَأَةٍ اَحَدٍ اَحَبُّ اِلَیَّ اَنْ اَکُوْنَ فِیْ مِسْلَاحِھَا مِنْ سَوْدَةَ اِلَّا اَنَّ فِیْھَا حِدَّةً تَسْرَعُ مِنْھَا حضرت سودہ رضی اللہ عنہا کے علاوہ کسی عورت کو دیکھ کر مجھے یہ خیال پیدا نہیں ہوا کہ میں اُس کے قالب میں ہوتی، اُن میں صرف اِتنی بات تھی کہ مزاج میں تیزی تھی جو ظاہر ہوجاتی تھی اَور جلدی چلی جاتی تھی۔(مسلم) ظرافت : حضرت سودہ رضی اللہ عنہا کے مزاج میں ظرافت بھی تھی آنحضرت ۖ کو کبھی کبھی ہنسا دیا کرتی تھیں۔ ایک مرتبہ عرض کیا کہ کل رات میں نے آپ ۖ کے پیچھے نفل نماز پڑھی باجود یکہ میں ساتھ تھی آپ ۖ نے (اتنا لمبا) رکوع کیا جس سے مجھے نکسیر چھوٹ جانے کا خوف ہوگیا اَور میں نے اِس کے ڈر سے ناک پکڑ لی۔ یہ سن کر آنحضرت ۖ کو ہنسی آگئی۔ (الاصابہ) سخاوت : اللہ جل شانہ نے حضرت سودہ رضی اللہ عنہا کو صفت ِسخاوت سے نوازا تھا۔ ایک مرتبہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اُن کی خدمت میں ایک تھیلی بھیجی جس میں کافی رقم تھی ،لانے والے سے پوچھا اِس میں کیا ہے؟ عرض کیا درہم ہیں ،فرمایا (درہم) جو کھجوروں کی طرح تھیلی میںبھرے ہوئے ہیں؟ یہ فرماکر اُن سب کو تقسیم فرمادیا۔ (الاصابہ) اَزواجِ مطہرات میں حشر ہونے کی تمنا : حضرت سودہ رضی اللہ عنہا بوڑھی ہوگئی تھیں، اُن کو خیال ہوا کہ کہیں آنحضرت ۖ مجھے طلاق ١ نہ دے دیں لہٰذا عرض کیایا رسول اللہ ۖ مجھے شوہر والی خواہش تو ہے نہیں، آپ مجھے اپنے نکاح میں رکھیں اَور میری باری کا دِن عائشہ رضی اللہ عنہا کو دے دیا کریں ،میں چاہتی ہوں کہ آپ کی بیویوں میں قیامت کے ١ یہ روایت ترمذی شریف کی ہے( کما فی الاصابہ) کہ حضرت سودہ رضی اللہ عنہا کو طلاق کا خطرہ ہو گیا تھا اور بعض روایات میں ہے کہ آپ ۖ نے اِن کو طلاق دی تھی،اِس پر اُنہوں نے عرض کیا کہ میں آپ ۖ کی اَزواج میں شمار ہو کر قیامت میں اُٹھنا چاہتی ہوںلہٰذا آپ ۖ نے رُجوع فرما لیا۔