ماہنامہ انوار مدینہ لاہور فروری 2010 |
اكستان |
ہیں ۔آج بد قسمتی سے یورپ زدہ ایشیائی اقوام عمومًا اَور نوجوانانِ ہندوستان خصوصًا اُن کی اِس ملعون تہذیب سے متأثر ہو کر اُسی طرز کو محمود سمجھتے اَور اُسی پر عمل درآمد کرنا فخر سمجھتے ہیں اور یہ زہر اُن کے رگ و جسم میں اِس قدر سرایت کر گیا ہے کہ ایسے اُمور کی قباحت اَور شناعت بھی اُن کے ذہن و دماغ سے جاتی رہی ۔'' (کشف ِحقیقت ص ٢،٣ ) اکابر جمعیة علماء کے سامنے اِسلام کی سربلندی تھی اَور دُشمنانِ اِسلام کے ساتھ جہاد۔ دُشمنانِ اسلام میں سب سے بڑا دُشمن یورپ تھا اَور اُس میں برطانیہ سب سے بڑی طاقت تھا، یہ حضرات اَور اِن کے اکابر انگریز کی چالبازیوں کو پوری طرح سمجھتے تھے ہر چیز پر نظر رکھتے تھے ۔ علماء کے اِس طبقہ کی ساری عمریں اِس جہاد میں گزری تھیں اُن کی تمام تحریرات جذبۂ جہاد اَور ترغیب ِجہاد و تعلیم ذکر اللہ سے بھری ہوئی ہیں اَورخود اُن کی زندگیاں علم و عمل تقوی اَور جہاد کا اعلیٰ ترین نمونہ تھیں۔ اِن حضرات کے پیش ِنظر عالمی سطح کے پروگرام رہتے تھے ، وہ برسہا برس سے اِس نتیجہ پر پہنچے ہوئے تھے کہ اگر ہندوستان سے انگریز چلے جائیںتوعرب ممالک بھی سب آزاد ہو جائیں گے اِن کے جلسوںمیں اِسی مضمون کی نظمیں پڑھی جاتیں اور اِسی قسم کی تقاریر ہوتیں۔ اِن ہی کی مسلسل قربانیوں اَور جدوجہد کے بعد بالآخروہ دَور آیا جب حکومت ِبرطانیہ یہ طے کرنے پر مجبور ہو گئی کہ ہندوستان کو آزاد کرنا ہی پڑے گا ۔ اُس وقت ہندوستان میں بہت سی پارٹیاں تھیں لیکن اُن میں مسلم جماعتوں میں جمعیة علمائِ ہند اَور مسلم لیگ کے معاملات حضرت مدنی سے متعلق ہیں۔ اِس لیے مختصرًا ہم نے یہ خاکہ بیان کیا۔ جب اُن حضرات کی جدوجہد کے کامیاب ہونے کا وقت آنے لگا تو برطانیہ میں حزبِ اختلاف و اقتدار میں سے ایک کی رائے ہوئی تھی کہ مقبوضہ ممالک کو آزادی دی جائے۔ جب وہ پارٹی بر سرِ اِقتدار آئی جس کی یہ پالیسی تھی کہ وہ مقبوضہ علاقوں کو آزادی دے تو اُس وقت بھی اَکابرین ِجمعیت قید و بند کی صعوبتیں برداشت کر رہے تھے۔ جب عالمی جنگ ختم ہوئی تو یہ لوگ جیل سے باہر آئے، اُنہوں نے اِس صورت میں اپنے قدیم ذہن سے مسلمانوں کے لیے بہترین حل سوچا۔