ماہنامہ انوار مدینہ لاہور فروری 2010 |
اكستان |
|
انتخاب کیا اُن سے یہ کہا کہ آپ لوگ پنجاب جانا حضرت مدنی کی اجازت پر موقوف رکھیں ۔یہ لوگ دیوبند پہنچے اَور مسئلہ پیش کیا ،مولانا نے فرمایا کہ حضرت مدنی تو مجاھدتھے اُنہیں کب اِنکار ہو سکتا تھا، اُنہوںنے فرمایا ضرور جائیں ،یہ لوگ اِس اجازت کے بعد آگے روانہ ہو گئے ۔جمنا پار ایک بستی میں پہنچے، ( بقیہ حاشیہ ص ٢٢)اِس واقعہ کی مناسبت سے مجھے ایک واقعہ یاد آیا جو راولپنڈی میں خود حضرت مولانا محمدیوسف صاحب نے مجھے سنایا تھا۔ اِس سے اَندازہ فرمائیں کہ حضرت شاہ الیاس صاحب کو جن اکابر سے عقیدت تھی اُن سے کس طرح کا نادر تعلق تھا ۔اُنہوں نے فرمایا کہ حضرت مولانا مفتی کفایت اللہ صاحب رحمہ اللہ ( جو اپنے زمانہ میں بلاشبہہ پورے ہندوستان کے مفتی ٔاعظم تھے پیکرِ فقاہت و تقوی تھے ) جماعت ِتبلیغ کے شروع دَور میں فرمایا کرتے تھے کہ یہ کام سمجھ میں نہیںآتا باقی آپ کرتے ہیں تو ٹھیک ہے ۔ کچھ عرصہ بعد حضرت مفتی صاحب نے اِس کام کے اَور جماعت کے بارے میں تعریفی کلمات اِرشاد فرمائے۔ یہ بات شاہ صاحب کو پہنچی تو اِس قدر خوش ہوئے کہ دیر تک بار بار بے اختیار فرماتے رہے ''اَب کیا ہوگا'' افسوس ہے کہ میں نے حضرت مولانا یوسف صاحب سے حضرت شاہ صاحب کے اِن کلمات کا مطلب نہیں دریافت کیا سمجھ میں یہی آتا ہے کہ خوشی میں بے ساختہ اِتنا جملہ فرماتے تھے تو اُس کے بقیہ کلمات محذوف ہوں گے اَور پورا جملہ اِس لیے نہیں اَدا فرماتے ہوں گے کہ اُس میں اپنی تعریف کا پہلو نہ نکل آئے جس سے یہ مقدس حضرات سخت پرہیز رکھتے تھے ، رحمہم اللہ تعالیٰ ۔ ایک دفعہ حضرت شاہ صاحب ولایتی کپڑ ے کا لباس پہنے ہوئے دیوبند تشریف لائے جو حضرت مدنی پسندنہیں فرماتے تھے آپ نے شاہ صاحب سے اِس کے بارے میں کوئی جملہ فرمایا یہ بات حضرت مدنی کے مہمان خانہ میںہوئی تھی پھر حضرت مدنی گھر میںتشریف لے گئے ، اِن کے جانے کے بعد حضرت شاہ صاحب نے متعدد بار پُر زور الفاظ میں فرمایا کہ '' حضرت مولانا نے جو اِرشاد فرمایا وہ بالکل حق ہے '' او ر ہاتھ سے زور دینے کے لیے اِشارہ بھی فرماتے جاتے تھے ۔( راوی نے مجھے بتایا کہ حضرت شاہ صاحب رُک رُک کر ہکلا کر بول رہے تھے آپ کی فطری زبان اِسی طرح تھی)۔ایک دفعہ آپ نے حضرت مدنی سے اپنی جماعت تبلیغ کے بارے میں اِرشاد فرمایا کہ میں آپ کے لیے سپاہی تیار کر رہا ہوں ۔یہ سب باتیں ایسی ہیں کہ اِن کے سُننے اور جاننے والے آج بھی مل جائیں گے۔ (حامد میاں غفرلہ)