ماہنامہ انوار مدینہ لاہور فروری 2010 |
اكستان |
|
اِس سے کھلے طور پر یہ معلوم ہو رہا ہے کہ خود حضرت علامہ کو پوری باتیں یاد نہیں رہی تھیں جو باتیں بعد میں اُنھوں نے نقل فرمائی ہوں گی وہ صرف علامہ کی اپنی ہی ہو سکتی ہیں جن میںاضافہ کر یہ مضمون بنا دیا گیا ۔ پھر تحریر ہے اُس مکالمہ میں سب سے زیادہ حصہ مولانا حفظ الرحمن صاحب لیتے رہے اَور دُوسرے درجہ میں مولانا احمد سعید صاحب اِن کے شریک ِکار رہے ۔ کبھی کبھی اَور صاحب بھی کچھ بول پڑتے تھے (ص٦ س١١)حالانکہ زیادہ گفتگو مولانا حفظ الرحمن اور مفتی عتیق الرحمن کرتے رہے تھے جس کا مؤلف کو علم نہیں۔ و : نیز تحریر ہے '' آخر مجلس میں حضرت مولانا حسین احمد صاحب مدنی کچھ بولے جو تقریبًا دس پندرہ منٹ سے زیادہ نہ تھا''۔(ص ٦ کی آخری سطر ) یعنی حضرت مدنی اور علامہ عثمانی کی گفتگو بہت تھوڑی ہوئی ، پھر اِس زور شور سے اِس گفتگو کا ''مکالمة الصدرین ''نام رکھنا کس قدر غلط ہے ۔ یہ نام اِس لیے بھی غلط ہے کہ اُس وقت تک علامہ عثمانی جمعیة علمائِ اسلام کے صدر بھی نہیں بنے تھے بلکہ صدارت قبول کرنے نہ کرنے کا اپنی حد تک بھی کوئی فیصلہ نہیں کیا تھا ۔خود مکالمة الصدرین میں تحریر ہے۔''علامہ عثمانی نے فرمایا کہ میں نے ابھی صدارت کے قبول اور عدم قبول کی نسبت کوئی باضابطہ فیصلہ نہیں کیا ہے لیکن کل کے لیے کچھ نہیں کہہ سکتا کہ کیا کروں گا ۔''(مکالمہ ص ٢٩ آخری سطر اور ص ٣٠ سطر نمبر ١،٢) خود مکالمہ کی اِن عبارات سے معلوم ہو رہا ہے کہ علامہ عثمانی مرحوم و مغفور کی گفتگو مولانا حفظ الرحمن سے ہوتی رہی اور علامہ کو پوری باتیں یاد نہیں رہیں۔لازمًااُنہوں نے پوری باتوں کا جواب بھی نہ دیا ہوگا پھر اپنے تلامذہ کے سامنے اُنہوں نے گفتگو کا کچھ حصہ بیان فرمایا ہو گا جسے اُنہوں نے طبع کر دیا اور مبالغہ بہت زیادہ کیا کہ اِسے مناظرہ کا رنگ دے دیا اورعلامہ عثمانی کو قبل اَز وقت ہی صدر جمعیة علماء ِاسلام کرکے لکھ دیا ۔ ز : مولانا طاہر صاحب مرحوم کی یہ تحریر منسوخ شمار ہو گی کیونکہ اِس کے کچھ عرصہ بعد مولانا طاہر صاحب مرحوم و مغفور کو اِس پر ندامت ہوئی آخر کار وہ علامہ شبیر احمد صاحب عثمانی کے ساتھ نہیں رہے ۔اُنہوں نے حضرت مدنی رحمة اللہ علیہ سے معافی مانگی اور آج دیوبند میںموجود سب اکابریہ جانتے ہیں اور اُنہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ وہ حضرت اقدس مولانا السید حسین احمد مدنی رحمہ اللہ کے ساتھ اِس کی تلافی کے