ماہنامہ انوار مدینہ لاہور فروری 2010 |
اكستان |
|
لیے خادمانہ طرزپر حاضر ہوتے تھے ۔اُن کے اِس طرز عمل کو دیکھ کر تعجب ہوتا تھا ۔میں نے خود بھی یہ منظر دیکھا ہے میںایک سفر میں حضرت مدنی رحمہ اللہ کے ساتھ تھا ۔میرٹھ کے اسٹیشن پر گاڑی زیادہ ٹھہرتی ہے مولانا طاہر صاحب جو ساتھ سفر کر رہے تھے اُترے تھوڑی ہی دیر میں وہ اسٹال سے چائے بنوا کر ٹرے خود اُٹھائے ہوئے لائے مجھے اُن کی پہلی روِش اور اِس حالت کو دیکھ کر بہت تعجب ہوا ،چائے اسٹال والا بھی تھالی میں سجا کر لا سکتا تھا اَور وہ حضرت کے خدام میں سے کسی کو بھی ساتھ لے جا کر اُس کے ہاتھ بھیج سکتے تھے یا وہ اُن کے ساتھ جاتا اور اُٹھا کر لے آتا لیکن اُن کا مقصد یہ بھی تھا کہ خود کو مخدوم زادہ ہونے کے باوجود ایک خدمت گار بن کر دکھائیں اور سابقہ اُمور کی تلافی کریں۔ ایسے شخص کی سابقہ تحریرات منسوخ ہوجاتی ہیں اگر یہ رسالہ ہندوستان میں چھاپا جائے تو ہر شخص یہی کہے گا کہ صاحب ِتحریر نے اپنے خیالات سے رجوع کرلیا ہے ۔ اِس کے علاوہ تمام باتوں کے جوابات خود حضرت مولانا مدنی رحمہ اللہ نے اپنی تصنیف کشف حقیقت میں تحریر فرمائے ہیں اُس میں مولانا حفظ الرحمن صاحب اور حضرت مولانا المفتی کفایت اللہ صاحب نوراللہ مرقدہما کے بیانات بھی ہیں اور وہ فارمولا بھی ہے جو جمعیة علمائِ ہند نے کل مسلمانانِ ہند کے لیے پسند کیا تھا اور اُن صوبوں کی پوری رعایت رکھی تھی جن میں مسلمان اقلیت میں ہیں ۔مولانا حفظ الرحمن صاحب نے اِسے بھی پاکستان کا نام دیا ہے ۔ اُس وقت چونکہ یہ رسالہ غلط مقاصد سے شائع کیا گیا ہے جس سے پڑھنے والے کے ذہن میں اِن حضرات کے بارے میں غلط توہمات پیدا ہوتے ہیں اور ہم سے دریافت کیا جاتا ہے کہ مسلم لیگ کے ساتھ جمعیة علماء نے بات کرکے کیوں ایک رائے نہیں اختیار کر لی یا مسلم لیگ اِن کے ساتھ ہو جاتی یا یہ سب اُس کے ساتھ ہو جاتے ۔ اِس کا جواب یہ ہے کہ اُنہوں نے یہ فارمولا پیش کیا اور یہ دعوت بار بار دی کہ سب مل کر غور کرلیں جس شکل میں مسلمانوں کا نفع زیادہ ہوسب وہی اختیار کر لیں۔ ہم اِس مضمون کے آغاز میںفارمولا بھی ذکر کر رہے ہیں ، اِس فارمولے کا تعلق اِن حضرات کے