ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2008 |
اكستان |
|
فون کیا........بیل پرنعت ِرسول ۖ کے اَشعارچل رہے تھے : فاصلوں کو تکلف ہے ہم سے اگر ہم بھی بے بس نہیں بے سہارا نہیں کسی نے فون نہ سُناکسی سے میری بات نہ ہوسکی۔ اچھا ہی ہوا ورنہ میں کیاپوچھتااورکیابتاتا؟ اگر قیدی نمبر650 عافیہ ہی ہے تویہ بھی اچھاہواکہ وہ ذہنی توازن کھوبیٹھی ورنہ ابوغریب والی فاطمہ کی طرح ہمیں خط لکھ بھیجتی توہم کیاکرتے؟ اُسے کیسے سمجھاتے کہ بیٹی!ہم توخود ''وَارآن ٹیرر''کے دَست وبازوہیں؟ اُسے کیونکر بتاتے کہ ہم نے خودماؤںکے لخت ِ جگرکئی کئی سالوں سے غائب کررکھے ہیں؟ اُسے کیسے بتاتے کہ ہم نے تو ڈالروں کے عوض بردہ فروشی کی ہے اورگوانتانامو کاچڑ یاگھربسایاہے؟ اُسے کس طرح سمجھاتے کہ جس دیو کے خلاف وہ ہماری مددچاہتی ہے ہم توخوداُس کے غلام ہیں؟ اُسے کیونکرباوَرکراتے کہ ہمارے وزیراعظم کے دَورۂ امریکا کی کامیابی کے لیے اِس ایشوپرمٹی ڈالنا''وسیع ترقومی مفاد''میںہے؟ اُسے کیونکریقین دِلاتے کہ ہم سولہ کڑوڑ، رَاکھ کاڈھیرہیں اوروہ کسی چنگاری کی آرزُومیں اِس راکھ کونہ کُریدے۔ بگرام جیل میں عافیہ کی موجودگی کی خبردینے والی بر طانوی صحافی ریڈلی بھی ایک بارطالبان کی قید میں چلی گئی تھی۔ اپنی کتاب میں گیار ہ روز ہ قیدکی رُ ودادلکھتے ہوئے بتاتی ہے کہ ''طالبان اُسے بہن سمجھتے تھے اُسے پہلے کھاناکھلانے کے بعد خودکھاتے تھے۔ اُن کی خواتین اِس کے کپڑے دھوتی تھیں.. .......... ریڈلی طالبان کے سلوک سے متاثرہوکرمسلمان ہوچکی ہے۔ اَمریکیوں کے قیدمیں پڑی عافیہ اورطالبان کی قیدی بننے والی ریڈلی کی کہانیاں بتارہی ہیں کہ دراَصل دہشت گرد اُجڈ،گنوار، بے ڈھب، اِنتہاپسند، خونخواراور آدمخور کون ہے؟ اگرعافیہ واقعی ذہنی توازن کھوچکی ہے توہم سولہ کڑوڑپاکستانیوں کوکوئی خطرہ نہیں؟ اُسے کچھ یادنہیں ہوگا۔ وہ محمدبن قاسم والی کہانی بھی بھول چکی ہوگی لیکن عافیہ کاشجرۂ نسب تومحمد ِعربی ۖ کے رفیق ِ خاص سیّدنا ا بو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے جاملتاہے ۔ اگرروزِ محشراُس نے نبی کریم ۖ اور صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ کے رُو بر و ہما ری شکایت کردی توہماراکیابنے گا؟