ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2008 |
اكستان |
|
جائے تو وہ احتکار والی زمین میں موجود عمارت کے بارے میں ہے جس کے ساتھ زمین بھی گویا وقف ہی ہوتی ہے۔ لہٰذا خالص منقول میں وقف علی النفس کا جواز ثابت نہیں ہوتا۔ -3 علامہ شلبی کے دُوسرے فتوے کا مدار بھی طرسوسی رحمة اللہ علیہ پر اور اُن کے اِس قول پر ہے کہ نقدی میں وقف علی النفس حکم ملفق و مرکب ہے۔ اِس تلفیق کی حقیقت ہم اُوپر بتا چکے ہیں۔ رہی یہ بات کہ طرسوسی رحمة اللہ علیہ کی بات کو علامہ شلبی اور شیخ الاسلام ابو سعود اور علامہ شامی رحمہم اللہ نے بھی اختیار کیا ہے تو اِس سے فرق نہیں پڑتا کیونکہ جب اُنہوں نے دلیل ذکر کی ہے تو اَب دلیل کی حقیقت کو دیکھا جائے گا اشخصاص کو نہیں۔ -2 دُوسری باطل بنیاد، یہ سود اور قمار پر مبنی ہے۔ اُوپر ہم نے مولانا تقی عثمانی مدظلہ کی یہ دو باتیں ذکر کر چکے ہیں جو دوبارہ ذہن نشین کرلینی چاہئیں۔ -i ان الوقف لہ شخصیة اعتباریة فی کل من الشریعة والقانون۔ قانون اور شریعت دونوں ہی میں وقف کو قانونی و اعتباری شخصیت حاصل ہے۔ -ii ما یتبرع بہ المشترکون یخرج من ملکھم و یدخل فی ملک الصندوق الوقفی و بما انہ لیس وقفا و انما ھو مملوک للوقف ۔ پالیسی ہولڈر جو چندہ دیتے ہیں اُن کی ملکیت سے نکل کر وقف فنڈ کی ملکیت میں داخل ہو جاتاہے اور وہ وقف کی ملکیت بنتا ہے خود وقف نہیں بنتا۔ مولانا تقی عثمانی کے دارالعلوم کراچی کے ایک اُستاد ڈاکٹر مولانا اعجاز احمد صمدانی صاحب کچھ وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ''وقف چونکہ خو دشخص قانونی ہے اور دیے گئے عطیات براہ ِراست وقف کی ملکیت میں چلے جاتے ہیں اور وقف پھر اپنے طے کردہ ضوابط کی روشنی میں کلیمز (Claims) کی ادائیگی کرتا ہے اس لیے وقف کا نظام زیادہ قابلِ اطمینان ہے۔'' (تکافل اِنشورنس کا اسلامی طریقہ ص 100) ''جو لوگ وقف کی بنیاد پر بننے والے پول کو تبرع (Donate) کرتے ہیں وہ تبرع