ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2008 |
اكستان |
|
گزشتہ قاضیوں نے اِسی طرح سے فیصلہ دیا۔ شاید اِن کا فیصلہ یا تو اِس پر مبنی ہے جو ہم نے ذکر کیا کہ دو مذہبوں سے مرکب حکم جائز ہوتا ہے یا اِس پر مبنی ہے کہ زمین احتکار کی تھی تو گویا عمارت زمین سمیت وقف کی گئی تھی۔ ہم کہتے ہیں : طرسوسی رحمة اللہ علیہ نے بات کو اِس طرح سے ذکر کیا ہے گویا گزشتہ قاضی بہت سے اَوقاف میں زمین کے بغیر عمارت کے وقف علی النفس کے جواز کا فیصلہ دیتے رہے ہیں حالانکہ اور حضرات اِن کی طرف صرف عمارت کے وقف کے جواز کے فیصلہ کی نسبت کرتے ہیں اِس کے وقف علی النفس کے فیصلہ کی نہیں۔ ابن ِہمام رحمة اللہ علیہ لکھتے ہیں : و فی الفتاوی لقاضی خان وقف بناء بدون ارض قال ھلال لایجوز انتھی لکن فی الخصاف ما یفید ان الارض اذا کانت متقررة الاحتکار جاز فانہ قال فی رجل وقف بناء دار لہ دون الارض انہ لا یجوز۔ قیل لہ فما تقول فی حوانیت السوق ان وقف رجل حانوتا منھا؟ قال ان کان الارض اجارة فی ایدی القوم الذین بنوھا لا یخرجھم السلطان عنھا فالوقف جائز… و تداولھا الخلفاء ومضی علیھا الدھور وھی فی ایدیھم… فافاد ان ما کان مثل ذلک جاز وقف البنیان فیہ و الا فلا (فتح القدیر ص217 ج 6) ایسے ہی علامہ شامی رحمة اللہ علیہ نے رد المحتار میں خصاف رحمة اللہ علیہ سے نقل کیا ہے۔ -3 پہلے فتوے میں طرسوسی رحمة اللہ علیہ نے زمین کے بغیر عمارت کے وقف علی النفس کے جواز کی دو ممکنہ وجوہات بتائی ہیں اور اپنا خیال ظاہر کیا ہے کہ سابقہ قاضیوں نے اپنے فیصلہ کی بنیاد اِن ہی دو میں سے کسی ایک کو بنایا ہے، گویا علامہ طرسوسی خود تردد میں ہیں کہ واقعی وجہ کیا ہے؟ اور اِن دونوں وجہوں کا حال ہم بیان کر چکے ہیں کہ تلفیق بنتی نہیں اور گزشتہ حکام کا فیصلہ زمین کے بغیر عمارت کے وقف کے جواز کے بارے میں ہے اِس میں وقف علی النفس کے جواز کے بارے میں نہیں۔ اور اگر وقف علی النفس کے جواز کے حکم کو بھی تسلیم کرلیا