ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2008 |
اكستان |
|
۔ نہایت اَدب سے یہ بھی عرض خدمت ہے کہ رُواةِ صحاح کوئی آسمانی مخلوق تونہیں ہیں کہ اُن سے غلطی کاصدورہوہی نہیں سکتا۔ وہ بھی ہماری ہی دُنیا کے رہنے والے تھے اُن کے اعمال کے محرکات میں اُن کے جذبات ومعتقدات بھی شامل تھے۔ 47 ۔ اَب تک کوئی ایساآ لہ ایجادنہیں ہوا کہ کسی کی ذہنی کیفیت کوکَمَاھِیَ جانچاجاسکے اورپوری طرح اُس کے حافظے کا حدودِاَربعہ معلوم کیاجاسکے۔ 48 ۔ پھرقبول ِروایت میںمحدثین نے ایسی لچک رکھی ہے کہ بہت کچھ رطب ویابس اُس میں شامل ہوگیاہے ،روایت بالمعنی اِتنی بڑی چھوٹ ہے کہ اِس کی موجودگی میں کسی روایت کی گرفت ہی مشکل ہے۔ 49 ۔ محدثین کاذہن بنیادی طورپرقبول ِروایت کی طرف مائل ہے کیونکہ مسلمان ''لَعْنَةُ اللّٰہِ عَلَی الْکَاذِبِیْنَ '' پرایمان رکھتاہے اِس لیے اُس سے جھوٹ کی توقع نہیں ہے۔ پھر''مَنْ کَذَبَ عَلَیَّ '' کی وعیدموجودہے کیسے جھوٹ بولاجاسکتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ امام بخاری کی کڑی شرط صرف اِتنی ہی ہے کہ عمر بھر میں ایک دفعہ لقاء ثابت ہواورامام مسلم کے نزدیک صرف معاصرت کافی ہے لقاء ضروری نہیں ۔ اِس حالت میں روایت صحیح ہوگی۔ 50 ۔ واقع میں یہ قبولِ روایت کے رعایتی اُصول ہیں اسی لیے صحاح میں بلکہ صحیحین میں مبتدعین سے روایات موجودہیں۔ مرجیہ، قدریہ، ناجی، شیعہ، معتزلی سب رُواة موجودہیں۔ حضرت مولاناشبیراحمد عثمانی نے مقدمہ شرح مسلم میں لکھاہے : '' اَلْمُسْلِمُ مَلْاٰن مِّنْ رُوَاةِ الشِّیْعَہِ'' امام نسائی نے جونقدِ ِحدیث کے مسلّم امام ہیں .......صحیح بخاری کے رُواة میں سے ایک جماعت کو ''کتاب الضعفاء والمتروکین'' میں داخل کیاہے۔ اورحدیث ابن ِعمر کو '' کَیْفَ بِکَ اِذَا عَمَرْتَ بَیْنَ قَوْمٍ یُحِبُّوْنَ رِزْقَ سَنَتِہِمْ'' الحدیث کو.........(بحوالہ امام ابن ماجہ)جوحمادبن شاکرکے نسخے میں مروی ہے موضوع بتایاہے. (التعقبات علی الموضوعات اَزسیوطی ص 43، طبع علوی لکھنو ١٣٠٢ ھ) ۔ (جاری ہے)