ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2002 |
اكستان |
|
لیے لے آتے ہیں۔ایک تھائی سوشل ورکر سوم پوپ جنتراکانے ہزاروں بچیوں کو قحبہ خانہ جانے سے بچا لیا۔اس کے مطابق ان بچیوں کے خریداراکثر دیہاتوں کے سرداروں کی بیگمات ہوتی ہیںچونکہ ٹیچر کو معلوم ہوتا ہے کہ کونسا بچہ شکار ہو سکتا ہے اور کس کو فیس کی ادائیگی میں مشکل در پیش ہے ۔اس کے لیے وہ خریداروں کو پہلے ہی آگاہ کر دیتی ہیں۔سوشل ور کر کا کہنا ہے کہ اس نے خود سکول کے بچیوں سے لدے ہوئے ایسے ٹرک دیکھے ہیں جو قحبہ خانوں میں فروخت کے لیے لے جا ئی جا رہی تھیں۔اس عمل کو ''ٹوک کیو ''کہا جاتا ہے یا ''گرین ہار ویسٹ ''کا نام دیا جاتا ہے ۔سوم پوپ کا کہنا ہے کہ یہ ایک جنگ ہے۔ایسی جنگ جو ہمارے اپنے بچوں کے لیے ہے۔جریدے نے لکھا ہے کہ تھائی لینڈ اور بھارت میں بالخصوص بڑے پیمانے پر بچوں کی تجارت ہوتی ہے۔نیپال سے ہر سال ٧ہزار بچے بھارت میں سمگل ہوتے ہیں جو جنسی منڈی میں بھیج دیے جاتے ہیں ۔ ایڈ کے اس زمانے میں بچوں کو زیادہ منافع کمانے کے لیے استعمال کیا جانے لگا ہے۔بنکاک میں ایک صفحہ نمبر 38 کی عبارت کنواری بچی ساڑھے تین ہزار ڈالر میں فروخت ہو رہی ہے۔غربت کے شکار خاندان کساد بازاری سے شکست کھا چکے ہیں۔تھائی لینڈ میں جسم فروش بچوں کی تعداد یوں تو ٦٠ ہزار بتائی جاتی ہے مگر یہ ٢ لاکھ سے زائد ہے ۔ یہ سب ٢١ویں صدی کے غلام ہیں۔پاکستان سے عرب شیوخ کو امیر سے امیر تر بنانے والی اونٹوں کی د وڑکے لیے بچے جوکی سمگل ہو رہے ہیں۔بظاہریہ ان عرب شیوخ کے لیے کھیل اور تفریح طبع ہے مگران غریب بچوں کے لیے قیامت کا سماں ہے ۔ ان جوکی بچوںکی آئیڈیل عمر ٥سے ٨ سال ہوتی ہے اور ان کا وزن١٧ کلو گرام سے کم ۔ جعلی دستاویزات پریہ بچے گروپوں کی شکل میں سمگل کیے جاتے ہیں۔ایک بچے کی قیمت٥سو سے ایک ہزار ڈالر ہوتی ہے جبکہ ٢٠ ١ ڈالر ماہانہ دیا جاتا ہے ۔یہ بچے ٢سے ٣ سال تک جوکی کا کام کرتے ہیں۔ کیا یہ بچے اس ملک کو غربت سے نکال سکتے ہیںجہاں فی کس سالانہ آمدنی ٤٧٠ ڈالر ہے ۔یہاںغربت زدہ خاندان اتنی کسمپر سی میں ہیں کہ اپنے بچوں کوتعلیم تک نہیں دلا دسکتے ۔ یہ افسوس ناک تجارت آج بھی جاری ہے ۔ جریدے نے نئی دہلی کے حوالے سے لکھا ہے کہ یہاں درمیانی طبقے کی ایک مطلقہ خاتون شوبھا بٹرا کی داستان لکھی ہے جو ایک نرس ہے ۔اسے اپنے بچوں کی دیکھ بھال ،کام کاج میں گھنٹوں لگتے ہیں ۔اسے مدد گار کی ضرو ر ت ہے تاہم وہ پریشان ہے کہ گھر میں مرد خطرناک ہوتا ہے اور خاتون باہر سے آشنا کو لے آتی ہے ۔اس لیے اس نے ایک بچے کو خریدنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ اسے ١٠سال کی بچی چند ڈالر ،کپڑے اور خوارک کی فراہمی کی شرط پرمل گئی۔اسی طرح کی سینکڑوں بچیاں بھارت میں قریبی دیہات سے یا کٹڑیوں سے امیر لوگ لے کر آتے ہیں جہاںانہیں بری طرح جسمانی اور جنسی مشقت سے گزرنا پڑتاہے۔ جریدے نے ایک بچی ببیتاکی داستان لکھتے ہوئے انکشاف کیا ہے کہ اس کی گھر سے روانگی کے تین ماہ بعد اس کا ١٤ سالہ بھائی شیکھر اسے دیکھنے کے لیے مالکہ بٹرا کے گھر کے باہر گیا ۔ اس نے دیکھا کہ ا س کاسر