فتنو ں کے دور میں ایما ن کو کیسے بچا یا جا ئے ؟
مولانا محمد حذیفہ وستانوی
اللہ رب العز ت نے ہمیں انسا ن کی صور ت میں وجو د بخشا ، یہ اللہ کا انتہا ئی عظیم انعام ہے ، اللہ کی مخلو ق میں انس و جن ہی مستحق جزا ء و سزا ء ہیں، اس لیے کہ اللہ نے انسا ن کو قو تِ ارادہ عطا کیا ، پھرعقل دی جس سے وہ خبیث وطیب میں تمیز کر سکے ، اپنے نفع و نقصا ن کو سمجھ سکے ، اور اسے ہدایت وضلا لت کے درمیا ن امتحا ن کے لیے چھوڑ دیا ، اس کی ہدایت کے لیے انبیا ء علیہم السلا م کو مبعو ث کیا ،جنہوں نے وحی کی روشنی میں ہدایت کی را ہیں بتائیں ، انبیا ء کے سلسلے کو احمد ِمصطفی محمدِ مجتبیٰ حبیب ِکبریا ء صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم کیا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر انتہائی جامع وحی ناز ل کی ، جس میں انسا ن کو اللہ سے مر بو ط رکھنے کے لیے عقائدکی تعلیم ، اللہ کی مر ضیا ت کے مطابق قو ل و فعل کے لیے احکامِ فقہیہ کی تعلیم ، اخلاق کی درستگی کی لیے تزکیہٴ نفس کی تعلیم ، حقو ق العباد وحقوق الحیو ا ن کے لیے معاشر ت کی تعلیم ، اور کسب ِحلا ل کے لیے معیشت کی تعلیم کو مکمل جامعیت وما نعیت کے ساتھ اور سا تھ سا تھ ” اشر اط الساعة “ کے عنو ا ن سے قیامت تک امت کو پیش آ نے والے فتنو ں اور اخبار سے مطلع کیا گیا، غرضیکہ ان تمام امور کی تعلیم دی گئی جو انسا ن کی دنیوی ضرورت کو بہ حسن وخو بی پورا کر نے کے ساتھ ساتھ آ خر ت کی کا م یابی کی مکمل ضا من ہو ، جب تک امت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیما ت پر عمل کرتی رہی دنیوی کا م یا بیا ں اس کی قدم بو سی کرتی رہیں، مگر جہاں امت نے تعلیمات ِنبویہ سے انحر ا ف کیا اور اپنی خواہشا ت کے مطا بق قرآ ن وحدیث کی باطل تاویلا ت کر نی شروع کردیں تو اللہ نے اس کو ہرطرح کی دنیو ی پریشا نی میں مبتلا کر دیا ۔ قر آن نے پہلے ہی کہہ دیا تھا ﴿انتم الا علو ن ان کنتم موٴمنین﴾ ”تم ہی سر بلند رہو گے اگر صفتِ ایما ن کے ساتھ متصف رہو گے ۔“
ایک سنگین مسئلہ
مسلما نو ں کو بڑی سنجیدگی کے سا تھ اس مسئلہ پر غو ر وفکر کرنے کی ضرو رت ہے کہ مقصد ِحیات کیا ہے ؟ اور آج کا انسا ن مقصد ِحیا ت کو پس پشت ڈا ل کر کہاں جا رہا ہے ؟!!
لو گوں کا عجیب حا ل ہے ، ایسے زندگی گز ار رہے ہیں جیسے مر نا ہی نہیں ہے !!! اور زندگی کا حساب ہی نہیں دینا ہے !!! حالا ں کہ یہ دو نو ں چیز یں امر مسلّم ہیں ، نہ مو ت سے کوئی بچ سکتا ہے اور نہ حسا ب و کتا ب اور میز ا ن سے اور نہ جزاوسز ا سے ۔ مغر ب نے ما دّیت یعنی دنیا پر ستی کو لو گو ں کے ذہن ودما غ پر ایسا مستو لی کردیاہے کہ دینی علم اور فکر آخرت میں رسو خ کے بغیر دنیاداری سے بچنا انتہائی دشو ار ہے ۔ اہل مغر ب یہو د و نصا ریٰ نے حب دنیا کو ذہن دماغ پر مسلط کرنے اور آخرت سے غافل کرنے کے لیے بڑی زبر دست پلاننگ کی اور دنیو ی تعلیم میں لو گوں کو ایسا مشغو ل کیا کہ دینی تعلیم کے لیے فرصت ہی نہیں بچی اور جو فر صت کی گھڑیاں تھیں اس میں انسا ن کو ذرائع ابلا غ کے جال میں پھنسا دیا کہ ٹیلی ویژن پر اخبار بینی، اسپور ٹ ، سیر یل، فلم ، ناچ ، گا نے ، مختلف کلچر پروگرام وغیرہ میں ایسا مشغو ل کیا کہ دین کے لیے اس کے پا س وقت ہی نہیں بچا ، نہ دین سیکھنے کا وقت ہے اور نہ دین پر عمل کر نے کی فرصت ۔
دنیوی تعلیمی نصاب میں بلاضرورت وحاجت افکار واعتقادات سے تعرض
اور مادی افکار کی زہرافشانی:
دنیو ی تعلیمی نصاب میں اگر فن اور ہنر پر اکتفا کیا جا تا تو کوئی با ت تھی، مگردنیوی تعلیمی نصا ب میں ما دّی افکار کا زہر اور اس کے ایما ن سو ز اثرات ، افکار ، اعتقادات اور تہذیب و ثقا فت کو بھی شا مل کیا …گہری سازش اور منصو بہ سے اس کی بھی ما دی تفسیر کی… قصداً وعمداً تعلیمی نصاب میں مادّی افکا ر کو فر و غ دیا …دین و مذہب کو انسان کی زندگی سے دریا بر د کر دیا اور خوا ہ مخواہ یہ ثابت کیا کہ” مذہب “ انسان کا ذاتی ونجی مسئلہ ہے (جب کہ پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا ) اجتما عی زندگی میں اس کی کوئی ضر ور ت نہیں اس فکر و تھنکنگ کو فروغ دینے کے لیے ”سیکو لرزم “(Secularism) کو بڑ ھا چڑھا کر پیش کیا ۔ اسی پر بس نہیں کیا، بلکہ انسا ن کو نجی زندگی میں مذہب سے دور رکھنے کے لیے” ہیو منز م“(Humanism) کو فر و غ دیا۔ انسا ن کو یہ تعلیم دی کہ وہ مختارِ کل … اور العیاذ با للہ اسے اپنی زندگی گزا ر نے میں کسی خدائی پا بند ی کا لحاظ کر نے کی ضرو ر ت نہیں۔ ایک اور قدم آ گے بڑھاتے ہوئے ”میٹر یلزم“ (Materialism) کو فر و غ دیا، اس کے ذریعہ انسا ن کو یہ بتلا نے کی نا مسعود کوشش کی کہ جو کچھ ہے بس یہی دنیا ہے ،لہٰذا دنیا کی کام یابی کی کوشش ہی میں مشغول ہوناہے ۔ العیا ذ با للہ آخر ت کی زندگی کس نے دیکھی ؟ اور پتہ نہیں مرنے کے بعد زند ہ ہو نا بھی ہے یا نہیں ؟ لہٰذا جو کچھ کر نا ہو سب دنیا ہی کے لیے کر و ، اپنی ہر چیز کو دنیا کی کا میا بی کے لیے قر با ن کردو ، اپنا ما ل ،اپنی جا ن، اپنا وقت ، اپنی اولا د سب کو دنیا داری میں مشغو ل کر دو ۔ اللہم احفظنا من الفتن
یہو د ونصا ریٰ کی شیطنت نے اپنے شیطا نی ایجنڈے کو مز ید استحکام دینے اور عو ا م تو عو ا م خو اص کو بھی اپنی لپیٹ میں لینے اور وحی الہٰی کی حیثیت ِحاکمہ کو ختم کر نے لیے لیے ”امپر یز م ‘ ‘ (Empiricism) کو فر و غ دیا اور یہ ثابت کر نے کی کو شش کی کہ جو کچھ حقیقت اور حقا ئق کا ادرا ک ہو تا ہے، محض مشا ہد ہ اور تجر بہ سے حا صل ہو تا ہے ۔ لہٰذا عقل، حس ،تجر بہ اور مشا ہدہ ہی اشیا ء کی حقیقت کو معلو م کر نے کے لیے کافی ہے۔ العیا ذ با للہ! اس کے لیے کسی ”نبی“ اور ”رسول ‘ ‘ کی تصدیق کر نے اور ا ن کی با ت پر اعتما د کر نے کی چند ا ں ضرو ر ت نہیں، اور اسی خطرناک حر بہ سے ان شیطا ن نما انسا نو ں نے عور ت کو آ زا دی دلا ئی ، جو آ زادی نہیں بر با دی کا با عث ہو ئی ۔ آج دنیا کے حالا ت اس پر گواہ ہیں اور جب عو ر ت گھر سے بے پر دہ ہو کر با ہر آ ئی تو اس کے کیا کیا نتا ئج سا منے آئے ؟ جنسی ابا حیت ، عریا نی ، فحا شی ، زنا کا ری ، کو عا م روا ج حا صل ہو گیا ۔ دنیا میں زنا کا ری کے لیے لا ئسنس جاری ہو نے لگے ، مر د اور عورت کی رضا مندی کو زنا کی فہرست سے خا رج کر دیا ،جس کے سبب یورپ میں خاندانی نظا م جو تبا ہ ہو ا، وہ دنیا والو ں کے سامنے ہے ۔ گویا ”من حفر بئراً لاخیہ وقع فیہ“ کا یو رپ صحیح مصدا ق ٹھہر ا ،جو اپنے بھا ئی کے لیے کو ا ں کھو دتا ہے خودہی اس میں گر تا ہے ۔اور” لبر یز م “ (Labralism) کے ذریعہ مذکورہ نظریہ کو مزید تقویت دی گئی۔ اب بھی اگرانسا ن اہل مغرب کے اس منصو بہ کو سمجھ کر رد کرنے پر آ ما دہ ہو جائے تو اس کے لیے خیر ہے ورنہ ہلا کت کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آنے والا ۔ ” خسر الدنیا وا لآ خر ة “سے دو چا ر ہو نا لا ز م ہے ۔ (اللہم اھدنا واھدبنا واھد النا س جمیعا ً )
یہو د و نصا ریٰ پر انسا ن کو گمر ا ہ کر نے اور اپنا تسلط قا ئم کر کے اسے بر قر ار رکھنے کا ایسا خبط سو ا ر ہوا کہ اس نے معاشر ے کے معصو م بچو ں کو بھی نہیں بخشا اور نصابی کتا بو ں میں مقصد ِحیا ت یعنی اللہ کی عبا د ت اور ا س کی رضا کے حصول کے لیے حتی المقدور کوشش سے غافل کر نے کے لیے ”فر ائیڈزم“ (Fraidism)اورجنسیت کو شا مل کیا اور العیاذ باللہ انسا ن کو یہ با و ر کرانے کی کوشش کی کہ وہ دنیا میں محض جنسی ضرو ر ت کو پور ا کرنے کے لیے آ یا ہے ، لہٰذا اسی پر اپنی توجہ مبذول کر ے اوراس طر ح انسا ن کو اشرف المخلو قات کے درجہ سے اتا ر کر دیگر حیو ا نو ں کی صف میں لاکھڑ ا کر دیا ۔
اخیر میں انسا ن کو خدا سے کاٹنے کے لیے ”ڈارونز م“ (Darivinism) کی کیل ٹھونک دی اور یہ جتلا نے کی کوشش کی کہ انسا ن ایک ترقی یا فتہ جا نو ر ہے اوریہ دنیا ” بقا ء اصلح “ کے اصو ل کے تحت وجود میں آئی اور چل رہی ہے۔ العیاذباللہ ! نہ اسے کوئی پیدا کر نے والا ہے اورنہ اسے کوئی چلا رہا ہے اور نہ یہ ختم ہو گی ۔
اللہ اللہ ! یہ کیا ہے دشمنا نِ انسا نیت اتنا سب کچھ کر نے پر بھی نہیں تھمے اور سیا ست کو بھی اپنے دا مِ فریب میں لے لیا اور یہ ہو ّ ا کھڑا کیا کہ سیاست اور دین علیحدہ علیحدہ ہے، لہٰذا انسا ن کی سیا سی کا م یا بی محض ”ڈیموکریسی “ اور جمہوریت میں مخفی ہے۔ اور حکم را نی کے لیے العیا ذ باللہ خدائی قوانین کی کوئی حا جت اورضر ور ت نہیں۔ اور اس طرح پارلمینٹ کو شریعت کی جگہ حلت اور حر مت کا ٹھیکا دیدیا بس پھر کیا تھا پا رلیمنٹ میں مو جو د ملحد فکر انسانوں کے ٹولہ نے شراب نوشی، جو ا،ہم جنس پرستی وغیرہ کو حلا ل قر ا ر دیدیا اورانسا ن کی بچی کھچی شرافت کو بھی ملیا میٹ کردیا ۔
اردو زبا ن میں ضر ب المثل مشہو ر ہے” دھوبی کا کتا نہ گھر کانہ گھاٹ کا “ بس مغر ب کی اندھی تقلید میں انسان کا بھی یہی حشر ہو ا کہ وہ خدا سے کٹا ہی تھا، سر ما یہ دارا نہ نظام کو فر و غ دیکر اس کو خود انسا نی ہمد ردی سے دور کردیا اور سو د کی بد تر ین لعنت میں گر فتا ر کر دیا کہ انسا ن بس اپنی مالی ترقی کی فکر کر ے اور بس !کو ئی دوسر ا انسا ن چاہے کیسی ہی بری حا لت میں کیو ں نہ ہو، اس کی ہمدر دی کر نے کی کوئی ضر و رت نہیں کیو نکہ سر ما یا دارانہ نظا م میں آمدنی کی تقسیم محض چار افرا د میں تقسیم ہو ئی ”انٹر پینر“ سرمایہ داراور اجیرکرایہ دار کے درمیان ہو گی ، معاشر ے کے کمزو ر او ر مفلو ک الحا ل کی طر ف کو ئی التفات نہیں کیا جا ئے گا ۔
انسا ن کی شرافت اور ایما نی طا قت کو سلب کر نے کی عا لمگیر سا زش
دور حا ضر کے ایمان سو ز فتنے جس نے مسلما نو ں کو خاص طور پر اور سار ے انسا نو ں کو عا م طور پر اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے اور انسا ن کو ہلا کت کے دہا نے پر لا کھڑ ا کیا ہے ، ایسے بد تر ین حالات سے کیسے نمٹا جا ئے اوراپنے خدائی قیمتی تحفہ ایما ن کو کیسے بچا یا جا ئے ، ہمیں اس کی فکر کر نی ہے، ورنہ انسا ن دشمن طاقتیں اب بھی اپنی کمینی حرکتو ں سے با ز نہیں آئی ہیں ۔مذکور ہ نظریا ت کے بعد بھی پے در پے نظر یا ت کو ذرا ئع ابلا غ کے ذریعہ عام کیا جا رہا ہے، مثلاً:”نظریہٴ بگ با نگ‘ ” انفجا رِعظیم“ اسی طر ح نظریہ” اضا فت و قت“ اسی طرح سال گز شتہ” ا سٹیفن ہو کنگ “کا نظریہ اور سا ل روا ں میں” ھیگ بوسوں پارٹ اوف گو ڈ “ کا نظریہ، یہ سب مادیت ”میٹرلیزم “ کو مہمیز دینے کے لیے کیا جا رہا ہے،بات دراصل یہ ہے کہ اس وقت غلبہ انہیں حاصل ہے ، لہٰذا وہ رکنے والے نہیں ،سیا سی غلبہ انہیں حاصل ہے، میڈیا ان کے مکمل کنٹرول میں ہے، ذرائع ابلاغ انسا ن کی قوتِ فکر پر کنٹرول پانے میں فعّا ل کر دا ر اداکر تا ہے، دو نو ں ان کے زیر نگیں ہیں ” الیہو د والعالم و ا لموٴامرات والا ہداف والا سرا ر “کے مصنف فارو ق محمد نجلا نے ”جذور البلا ء“ ص14 کے حوالہ سے ایک یہو دی حاخام Reichoen کی یہ با ت نقل کی ہے کہ اس نے ” سیمو ن بن یہود ا“ کی قبر کے پاس ایک تقریر کی تھی ،جس میں کہا تھا کہ”اگردنیا پر تسلط کے لیے سو نا اور چا ند ی انتہا ئی اہم ہتھیا رہے ،تو صحافت اور ذرائع ابلا غ کو دوسر ی پو زیشن حاصل ہے ۔ گو یا دو لت اور ذرا ئع ابلا غ دو نو ں ہی عالمی تسلط کے لیے نا گزیر ہیں، لہٰذا ہمار ے لیے یہ انتہا ئی ضروری ہے کہ مال و دولت کے ذریعہ صحا فت اورذرا ئع ابلا غ پر پو را کنٹر و ل حاصل کرلیں، چا ہے ذرائع ابلا غ پر کنٹرو ل کرنے کے لیے ہمیں کتنی ہی رشو ت کیو ں نہ دینی پڑے، ہم اس کے لیے تیاررہیں، کیو نکہ خاندانی نظا م ، عقا ئد اور اخلاق فاضلہ کو محفوظ رکھنے کے لیے اس کے بغیر چا رہ کا ر نہیں“۔ ( الیہو د والعالم الموٴامرات والا ہداف والا سرا ر : 161)
قا رئین ! آ پ اندا ز ہ لگا ئیں کہ ان کی سا زش کتنی گہر ی اور عا لمگیر ہے ، قر آ ن نے صحیح کہا ﴿ وان کان مکرہم لتزول منہ الجبا ل ﴾کہ اگر ان کا فریب اور بس چل جا ئے تو پہا ڑ بھی اپنی جگہ سے ہٹ جا ئے ۔ قرآن پہاڑ ہٹا نے کی با ت نہیں کررہا ہے بلکہ قرآ ن یہ کہہ رہا ہے کہ ان کی تد بیر یں، سا زشیں ، اتنی خطرنا ک ہو تی ہیں کہ راسخ العقیدہ انسا ن کو بھی ہلا کر رکھ دے ۔ اللہ ہما ری حفا ظت فر ما ئے آ مین ۔
یہ دشمنا نِ ایما ن نہیں بلکہ دشمنا نِ انسا نیت ہیں۔ محض اپنے مفا د کی خا طرمسلما نو ں ہی کو نہیں بلکہ پورے انسا نی معاشر ے کو عا لمگیر پیما نے پر اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے ، اورما دّیت کا حملہ ایسا خو فنا ک کیا ہے کہ ” الا ما ن و الحفیظ “۔ زند گی کے کسی بھی اہم شعبہ کو بخشا نہیں بلکہ سب میں ما دّی افکا ر کوپور ی مکاری عیاری اور منصو بہ بند ی سے مسلط کر دیا ہے ، مثلاً عقا ئد کو مسخ کر نے اور بگاڑ نے کے لیے ”ریشنلائزیشن“ (Rationalization)کو فر و غ دیا جس کا مفہو م ہے ۔ عقل کو مذہب میں آخر ی فیصلہ کر نے والا قر ار دینا اور ان تمام نظریا ت کو رد کرنا جو عقل سے مطابقت نہ رکھتے ہو ں ،(عالمی یہودی تنظیمیں :193) اور پھر اس عقلیت کے سہا رے مذکو رہ نظریا ت کو اس اصو ل کے پیش نظر فر و غ دیا کہ” جھو ٹ کو اتنا دہرا ؤ کہ لو گ اس کو سچ تسلیم کر نے پر آمادہ یا مجبو ر ہو جا ئیں“ اس عقلیت کے نتیجہ میں بالآ خر لا دینیت نے جنم لیا اور پھر یکے بعد دیگرے مادّی افکا ر جنم لیتے رہے اور اب بھی لے رہے ہیں ۔
عقا ئد کے بعد جمہو ریت کے ذریعہ سیا ست کو اپنی لپیٹ میں لیا اور اخیرمیں معاشر ت اور معیشت کو ”کمرشلا ئزیشن ‘ ‘کے ذریعہ اپنے قا بو میں کر لیا۔
آئیے اب ہم اپنی دنیا و آ خرت کی کا م یا بی کا عز م کرتے ہیں اوردنیا داری سے تو بہ ہی نہیں ”التو بة النصوحة “ کرتے ہیں اللہ ہماری مدد فر ما ئے ۔آمین
فتنو ں سے بچنے کی تدا بیر
اپنے ایما ن کی حفا ظت یہ ہمار ی اولین تر جیح ہو نی چا ہئے، کیوں کہ اگر ایما ن سے ہا تھ دھو بیٹھے، تو نا قابلِ تلافی نقصان اٹھا نا پڑے گا ،جس پر موت کے بعد کف ِافسو س ملنے سے بھی کوئی فا ئدہ نہ ہو گا اور اس کے بعد عذابِ جہنم سے خلا صی کی بھی کوئی صور ت نہیں ہو گی، جیسا کہ قر آ ن کریم نے جا بجا بیا ن کیا ہے ۔لہٰذ ا اس مسئلہ کی سنگینی کو مدنظر رکھتے ہوئے مند رجہ ذیل ہدایات پر عمل کیا جا ئے ،ان شا ء اللہ مکمل فا ئد ہ ہو گا۔ اللہ صحیح لکھنے کی اورپھر اس پر ہم سب کو عمل کر نے کی توفیق مرحمت فر ما ئے ۔ آ مین ۔
عربی زبا ن کی کہاوت ہے ” کیف یتقی من لا یدری ما یتقی “ یعنی جو شخص فتنو ں سے نا واقف ہو اور نہ اس کے بد تر ین انجام سے ،تو وہ کیسے فتنو ں سے بچ سکتا ہے ۔!!!
٭…راسخین فی العلم علما ء ربا نین کی تحر یرو ں اور تقریروں سے فتنہ کو جا نا جا ئے اور اس کے انجا م پر نظر رکھی جا ئے اور اس سے بچنے کی مکمل تدابیر اختیا ر کی جائیں ۔مثلا ً ”قیا مت کی نشا نیاں “(عمرا ن اشرف عثما نی ) ”عالمی یہودس تنظیمیں“ مفتی ابولبابہ صاحب ۔
٭…دعاء کا اہتمام کیا جائے اور رو رو کر اللہ سے مانگا جائے۔
٭…اسلامی فر ائض کا خا ص اہتمام کیا جائے مثلا ً نما ز ، رو ز ہ، حج ، زکوٰة اور ہر حالت میں ان فرائض کو ادا کرنے کی انتھک کوشش کی جا ئے ۔
٭…مقصد ِحیا ت” اللہ کی عبا دت اورا س کی رضا مندی کا حصول“ ہر حالت میں پیش نظر رکھا جا ئے ۔ اور اخلا ص کے ساتھ اس پر عمل کر نے کی کوشش کی جا ئے جس سے اللہ راضی ہو تے ہوں، اورہراس قو ل و عمل سے بچاجائے ،جس سے اللہ نا را ض ہو تے ہوں ۔
٭…آخرت کی فکر اپنے اندر پیدا کی جائے اور اس کے لیے صالحین کی صحبت اختیار کی جائے اورایسی کتا بیں پڑھی جائیں، اور گھرمیں اس کی تعلیم کی جائے جو فکر آ خر ت پید ا کر تی ہوں ، مثلاً مو ت کا جھٹکا ، دوزخ کا کھٹکا ، مو ت کا منظر ، کیا آ پ مو ت کے لیے تیا ر ہیں ؟ ، مر نے کے بعد کیا ہو گا۔ (ا ئمہٴ مسا جد اور علما ء کو خاص طور پر امت کے سا منے ایسی آ یا ت کی تفسیر کر نی چا ہئے جن میں آ خر ت اور آ خر ت کے عذا ب ،جہنم اور جہنم کے مناظر کو اللہ نے بیا ن کیا ہے ۔)
٭… اسلا م کے بار ے میں ادھو ری معلو ما ت رکھنے والو ں سے بچا جائے اور مخلص علماء ربانین اور راسخین فی العلم سے رابطہ کیا جائے ، خاص طور سے ٹیلیویژن پر جو ٹا ئی اور شرٹ پہن کر اپنے آ پ کو اسلا می اسکالر گردانتے ہیں ، جنہو ں نے با قا عدہ کسی عالم کے پا س دین کا علم نہ سیکھا ہو ،ا ن سے بچا جائے ، وہ آپ کی صحیح رہنما ئی نہیں کر سکتے بلکہ دین کے نام پر گمراہی کی راہ ڈال دینگے اور آپ کواس کا احساس بھی نہ ہو سکے گا۔
٭… دینی تعلیما ت کو حا صل کر نے کا نظا م بنا یا جا ئے ، یہ با ت امر مسلّم ہے ہمار ی تمام پر یشا نیو ں کا حل دینی تعلیم کے سیکھنے اور اس پر عمل کر نے میں ہے ، ہمارے بچے ، بڑے، عو رتیں ، جوا ن سب کو خو ب اچھی طر ح اسلا می عقائد سے واقف ہو نا چا ہئے ، سا تھ ہی ساتھ رو ز مر ہ کے فر ا ئض کے احکام مثلاً نماز ، روزہ ، زکوٰة، حج وغیرہ اور تا جر کے لیے تجا رت کے احکا م، مزدور کے لیے مز دو ری کے احکام ، جس کا جو پیشہ ہو اس پیشہ کے احکا م سے واقف ہو نا فر ض ہے۔ اسلامی عقا ئد کو خو ب اچھی طر ح سمجھا اور سمجھا یا جائے، اور روز مر ہ پیش آ نے والے مسائل کے شرعی احکام سے واقفیت حاصل کی جا ئے، یا تو صحیح العقیدہ علما ء سے براہِ راست سیکھاجائے یا ا ن کی کتا بو ں کی گھر میں تعلیم کی جا ئے، مثلاً اسلا م کی بنیا دی تعلیما ت (حضرت مو لا نا اشر ف علی تھا نوی)، تحفة المسلمین (مو لا نا عاشق الہٰی میرٹھی )، حیاةالمسلمین ، بہشتی زیو ر (حضرت مو لا نا اشر ف علی تھانوی ) ، دینی تعلیم کا رسالہ ، تعلیما ت ِاسلام(مفتی کفا یت اللہ ) ، اسلا می عقیدے (مولانا عبدالحق ) ، وغیرہ مگر علما ء سے بر ا ہ ِراست سیکھنا زیا دہ بہتر ہے ۔
٭…اہل اللہ اور صالحین کی صحبت اختیار کی جائے اور ان کے سامنے اپنے احو ال رکھ کر ا س کا علا ج کر وا یا جائے ۔اور تز کیہٴ نفس کی فکر کی جائے، اس سے متعلق کتا بیں پڑھی جا ئیں ، مثلاً دل کی دنیا (مفتی شفیع صاحب ) ، خطبا ت ذوالفقا ر ، مجا لس فقیر وغیرہ ۔
٭… اپنے بچو ں کی دینی تر بیت کی جائے اور فیشن پر ستی سے دور رکھا جائے ، گھر کا ما حو ل دینی بنا یا جائے ، کھا تے وقت بسم اللہ کھا نے کے بعد الحمد للہ وغیرہ کی تعلیم دی جائے ، اور ادعیہٴ ما ثور ہ کا خود بھی عا دی بنیں اور گھر والو ں کو بھی بنا ئیں ، صبح و شا م کی مسنو ن دعائیں او راذکار کا خاص اہتمام کیا جا ئے ۔
٭…بر ے لو گو ں اوربر ے کلچرسے مکمل پر ہیز کیا جا ئے ۔خاص طور پر ٹیلیویژن ، ویڈیو ، میوزک ، ناچ گا نا سے بچا جا ئے ، بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہم نے ٹی وی صر ف خبر و ں کے لیے رکھا ہے مگر انہیں یہ سو چنا چاہیے کہ مر نے کے بعد دنیا بھر کی خبر و ں کا سو ال نہیں ہو گا ،بلکہ خو د آپ کی اپنی خبر لی جا ئے گی کہ آپ نے کیا اچھا ئی کی اور کیا بر ائی۔ او ر پھر جزاء وسز ا کا فیصلہ ہو گا ، تو بس اسی کی فکر میں لگنا چا ہئے ، اپنی آ خر ت مقد م با قی سب بعد میں۔
٭…قر آ ن سے وابستگی ضرو ری ہے ۔ اس کو پڑھا جائے اس کو سمجھا جا ئے اور اس پر عمل کیا جائے ،جیسا کہ صحابہ نے کیا مگر افسو س کے امت نے قر آ ن کو پس پشت ڈا لدیا نہ اس کی تلا و ت ہوتی ہے نہ اس کو سمجھنے کی سعی اور نہ اس پر عمل ۔ لہٰذا ائمہ مساجد اور علما ء سب سے پہلے اس کو صحت اور تجو ید کے ساتھ پڑھنا سیکھیں ، ائمہ اور علماء بھی فکرمندی سے امت کو قر آ ن کی تعلیم دیں اور جو لو گ قرآ ن فہمی کے اصو ل وقو ا عد سے مکمل واقف ہوں ان سے قرآ ن کو سمجھا جائے نہ کہ ان لو گو ں سے جو نہ عربی جا نتے ہوں، نہ حدیث کا علم رکھتے ہو ں، نہ اصو ل و قو اعد تفسیر کی جانکار ی رکھتے ہو ں اور نہ نحوو صر ف ، علم بیا ن ومعانی اورعلم لغت وغیرہ سے واقف ہو ں بس اردو ترجموں کے سہارے تفسیر کر تے ہو ں ، اس سے بجا ئے فا ئدہ پہنچنے کے نقصا ن ہو گا ماضی میں ایسا ہو ا ہے ۔ اور اب بھی ہو رہا ہے اور اگر کسی کو تفسیر کے لیے منا سب عالم نہ ملے تو معتبر علما ء کی تفاسیر کا مطا لعہ کر ے البتہ اگر کو ئی بات سمجھنے میں دشو ار ی ہو تو ضر ور علما ء سے رابطہ کریں۔ شاہرا ہ کے” ای میل “ایڈریس پر دریا فت کر سکتے ہیں۔
عو ا م کے لیے عا م فہم تفا سیر یہ ہیں
معارف القرآ ن (حضرت مفتی شفیع صاحب )
گلدستہ تفاسیر (مو لانا عبد القیوم صاحب )
یہ دو نو ں تفاسیر ان لو گو ں کے لیے ہیں جو تفصیلی مطالعہ کر نا چاہتے ہیں ۔ اور مختصر کے لیے:
تفسیر عثما نی (شیخ الا سلا م علا مہ شبیر احمد صاحب عثما نی )
” آ سا ن تر جمہ قر آ ن “ (حضرت مو لا نا مفتی تقی عثما نی)
اورعلما ء کے لیے تو اردو میں بہت ساری تفاسیر ہیں ۔
٭…وقت کی قدر کریں ۔ ہم مسلما ن ہیں ، ہمار ا عقید ہ ہے کہ مرنے کے بعد زندہ ہو نا ہے اور اس زندگی کا حسا ب دینا ہے اور دنیا فانی اور آخرت با قی ہے اور یہ دنیو ی زندگی آخر ت کی تیار ی کے لیے ہے، لہٰذا
حتی المقدو ر ہر وقت ایسا عمل کر نا چاہئے جس سے آخر ت کا فا ئدہ ہو وقت کو ضا ئع ہو نے سے بچا نا چا ہئے ۔
آج انسان کا سب سے بڑ ا مسئلہ وقت کا ضیا ع ہے ، لو گو ں کو بے ہو دہ با تو ں میں مبتلا کر کے دشمنا نِ انسانیت نے بڑ ا ظلم ڈھا یا ہے ، موبائل ، ٹی وی ، انٹر نیٹ ، تفریح گا ہیں وغیرہ کو اتنا عا م کیا جا رہا ہے کہ اللہ کی پنا ہ انسان آخرت کی تیا ری سے بے خبر ہو کر ان میں ایسا ہمہ تن مصر و ف ہے، جو اس کے لیے بڑ ے خسا رے کی با ت ہے ، لہٰذا عقلمند ی یہ ہے کہ لغو یا ت سے بچا جا ئے ، عا دا ت اور ضرو ریا ت کو بھی نیک نیتی کے ذریعہ عبا دات میں تبدیل کیا جا سکتا ہے ، مثلاً کھا تے وقت یہ نیت کر لیں کہ عباد ت پر تقویت کے لیے کھا رہا ہو ں ، تجا رت حلا ل کمائی کی نیت سے ہو، تو یہ سب دنیو ی امو ر بھی عبا د ت بن جا ئیں گے ،اور آ دمی گنا ہو ں سے بچنے لگے گا ۔ اللہ ہماری فتنوں سے حفا ظت فر ما ئے ۔
٭…سیرت نبوی کا خاص مطالعہ کیاجائے کیوں کہ انبیا ء علیہم السلا م کو تعلیما ت وحی کی عملی صو ر ت بتلا نے کے لیے ہی مبعو ث کیا جا تا رہا ، رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چو نکہ خا تم الا نبیا ء والمر سلین تھے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت اور زندگی قیا مت تک آنے والو ں کے لیے اسوہ اور نمو نہ ہے جیسا کہ قر آ ن میں ارشا د باری ہے ہے ﴿لقد کان لکم فی رسو ل اللہ اسو ة حسنة ﴾ ” تمہار ے لیے رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں بہتر ین نمونہ ہے ۔“ اس مو ضو ع پر سب سے عمدہ کتا ب عارف با للہ حضرت مولا نا عبد الحی عارفی رحمة اللہ علیہ کی ”اسوہ ٴرسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم“ہے، (اس کا انگلش میں ترجمہThe Ways Of Holy Prophet Mohammad ہو چکا ہے ) آپ نے اس کو لکھا بھی ہے سیرتِ نبو ی پر عمل کر نے ہی کے لیے۔ اس کے علا وہ سیر تِ خا تم الا نبیا ء اور تفصیلی مطالعہ کے لیے سیر ت المصطفی مولانا ادریس کا ندھلو ی رحمة اللہ علیہ ۔
یہ اور اس کے علاوہ علما ء سے اور جو کچھ معلو م ہو سکے اس پر عمل درآمد شرو ع کیا جا ئے ، اللہ کی ذات سے امید قوی ہے کہ وہ اپنی خصو صی رحمت میں ڈھانپ کر فتنو ں سے بچا لے گا اور ایما ن پر خا تمہ فر ما کر دنیا اور آخر ت کی کا م یا بی سے ہم کنا ر کر دے گا اللہ تعالیٰ عمل کی تو فیق عطا فر ما ئے آمین ۔