Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق ربیع الثانی 1434ھ

ہ رسالہ

4 - 18
تصوف، ہمارا قیمتی سرمایہ
مولانا اعجاز احمد صاحب اعظمی

ادھر چند برسوں میں اہل اسلام کے درمیان سے علم وفضل اور زہد وتقویٰ کے لحاظ سے ممتاز،اتنی بڑی بڑی شخصیتیں مسلسل اٹھتی چلی گئی ہیں کہ کم ازکم ہندوستان کے دینی، بلکہ انسانی حلقوں میں ایک ناقابل تدارک خلا محسوس ہونے لگا ہے، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انسانوں کے گناہوں کی تاریکی اور دھوئیں میں یہ نورانی ہستیاں گھٹن اور وحشت محسوس کرنے لگی تھیں، اس پر حق تعالیٰ نے یکے بعد دیگرے ایک بڑی تعداد کو اپنی آغوش رحمت میں بلا لیا۔

یہ تو حقیقت ہے کہ انسان دنیا میں مسافرانہ وار د ہوا ہے،اس کا سفر برابر طے ہورہا ہے ،ہر روز ایک انسانی قافلہ شب و روز کی راہ قطع کرتا ہوا عدم کی منزل میں گم ہو جاتا ہے،تاہم ہرروز ایک نیا قافلہ اس دنیا میں وارد ہو کر جانے والوں کی جگہ پر کر لیتا ہے، لیکن انھیں جانے والوں میں کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جن کا جانا دنیا کو بہت محسوس ہوتاہے،وہ رحمت و برکت کا سر چشمہ ہوتے ہیں۔ان کے سائے میں ایک عالم کا عالم راحت پاتا ہے، ان کے وجود سے دلوں میں روشنی محسوس ہوتی ہے،ان کی صحبت میں سکون و اطمینان کی چادرسی تنی ہوئی معلوم ہوتی ہے ،یہ لوگ جب چلے جاتے ہیں تو بے شمار انسان بے سایہ اور بے سہارا لگنے لگتے ہیں،پھر دنیا کے ستائے ہوئے لوگ ، مصیبت کے مارے ہوئے لوگ،علم وعمل کے پیاسے لوگ ،گزر جانے والوں کا بدل تلاش کرتے ہیں اور نہیں پاتے ،تو انھیں دہری مصیبت کا احساس ہونے لگتا ہے۔

ہم کئی سال سے جن شخصیتوں کو کھوتے چلے جارہے ہیں ،وہ اسی شان کی تھیں جس کا ہم نے اوپر ذکر کیا ہے ،ان میں سے ہر شخصیت ایسی ہی تھی کہ آج ان کا بدل تلاش کرنے سے نہیں ملتا،یہاں ان سطروں میں ہم ان بزرگان رفتہ کا ماتم نہیں کرنا چاہتے،بلکہ اس پر غورکرنا چاہتے ہیں اور اپنے اخوان و احباب کو دعوت فکر دینا چاہتے ہیں کہ گزر جانے والی نسل میں وہ کیا خاص بات تھی جس کی وجہ سے وہ ساری انسانیت کے لیے پناہ گا ہ بن گئے تھے، اور ان کے سائے میں ہر آنے والا سکون اور خنکی محسوس کرتا تھااور موجود ہ نسل سے کیا چیز گم گئی ہے کہ اس کے پاس سوزش ،تکلیف،پیاس اور بے اطمینانی کے سوا اور کچھ نہیں ملتا ۔

لوگوں کے رجحانات بدلے ہوئے ہیں ،ہوا کا رخ کچھ اور ہے،اس سے ہٹ کر گفتگو کرنا اپنے آپ کو مور دطعن بنانا ہے ،لیکن جو بات کہنے کی ہے اسے”حلقہٴ یاراں “میں لانا ضروری ہے،شاید دلوں کی آنکھ کھلے،شاید کسی کو نفع ہو۔

جب ہم ان بزرگوں کی زندگی اور ان کی سیرت وشمائل پر غور کرتے ہیں تویہ حقیقت نمایاں طورپر نظر آتی ہے کے جن کمالات کی وجہ سے انھیں دنیا نے اپنے دل میں جگہ دی، ان کا اصل منبع اور سر چشمہ وہی چیز ہے، جسے آج کل اسلام میں شجر ممنوعہ قرار دیا جا رہا ہے ،وہ کیا ہے؟وہ تصوف ہے۔یہ سارے حضرات اکابر تصوف کے ذوق آشنا ہی نہیں، عملاً اس کو چہ کے راہ نورد اور اس کے سالک تھے ،اسی تصوف نے ان کی زندگیوں میں اس درجہ حلاوت،کیف اور چاشنی بھر دی تھی کہ جو بھی ان کی صحبت میں پہنچ گیا وہ ان میں جذب ہو کر رہ گیا۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :﴿وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِیَعْبُدُوا اللَّہَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ﴾․ ان کو جوحکم ہے وہ یہی ہے کہ اللہ کی عبادت اخلاص کے ساتھ کریں اور اسی اخلاص میں آدمی ترقی کرتا ہے تو اسے مرتبہٴ احسان حاصل ہوتاہے،جو عبادت اور دین کا اصل جوہر ہے،اس کے حاصل ہونے کے بعد آدمی کا رُواں رُواں صداد ینے لگتا ہے کہ: ﴿اِنّ َصَلَاتِیْ ونُسْکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ للّٰہِ رَبِّ الْعَا لَمِیْنَ﴾․
ترجمہ:”بے شک میری نماز، میری قربانی، بلکہ میری زندگی اور موت محض اللہ کے لیے ہے جو سارے عالم کا پروردگار ہے۔“

اسی اخلاص او راحسان کو حاصل کرنے کا طریقہ اور اس تک پہنچنے کا راستہ تصوف کے نام سے معروف ہے ،اب خواہ کوئی اس نام سے بھڑ کے یا اسے غیر اسلامی چیز قرار دے ،مگر یہ حقیقت ہے کہ اس راہ کو اپنائے بغیر اخلاص اور احسان کے نام اور اس کی علمی تشریحات کی معرفت تو ہوسکتی ہے ،لیکن آدمی کا دل ودماغ اور اس کا ریشہ ریشہ اس کی حلاوت سے سر شار ہوجائے،اس کا حصول مشائخ کی صحبت اور تصوف کی عملی مشق کے بغیر بہت دشوار ہے۔یہ ایک حقیقت ثابتہ ہے، آدمی خواہ اس سے صرف نظر کرے ،مگر اس کے بغیر اسے اپنی زندگی میں خلا ضرور محسوس ہوتا ہے ،بشرطے کہ حس ماؤف نہ ہوچکی ہے،آج دنیا میں انسان اپنے کو بہت سی لا یعنی مشغولیات میں مبتلا کر کے حقائق سے فرار اختیار کرتا ہے، مگر مرض اوربڑھا پا تمام لا یعنی مشغلوں کو چھڑا دیتاہے،اس وقت بہت سے لوگوں کو اپنی کمی کا احساس ہونے لگتا ہے اور اصحاب توفیق اس پر پہلے ہی متنبہ ہو جاتے ہیں،اس سلسلے میں مشہورومعروف صاحب علم وتدریس حضرت امام غزالی علیہ الرحمہ کا اعتراف اور ان کی آپ بیتی ملاحظہ کر لینی چاہیے، یہ صرف انھیں کے دل کی آواز نہیں ہے،بلکہ غور کریں گے تو بکثرت اصحاب علم وفضل کے دل کی گہرائیوں سے یہ صدانکلتی ہوئی محسوس ہوگی،یہ اور بات ہے کہ امام غزالی نے اس صداپر لبیک کہا اور بہت سے حضرات اسے نظر انداز کر دیتے ہیں،امام غزالی کی تحریرکایہ اقتباس ہم حضرت مولانا سیّد ابوالحسن علی ندوی کی مایہ ناز کتاب”تاریخ دعوت وعزیمت“حصہ اول سے نقل کرتے ہیں۔امام صاحب علوم وفنون کی کئی بے برگ وگیاہ وادیوں کا جائزہ لینے کے بعد لکھتے ہیں کہ:

”اب صرف تصوف باقی رہ گیا ہے،میں ہمہ تن تصوف کی طرف متوجہ ہوا، تصوف علمی بھی ہے اور عملی بھی۔میرے لیے علم کا معاملہ آسان تھا،میں نے ابوطالب مکی کی”قوت القلوب“اورحارث محاسبی کی تصنیفات اور حضرت جنید وشبلی وبایزید بسطامی وغیرہ کے ملفوظات پڑھے اور علم کے راستے سے جو کچھ حاصل کیا جاتا تھا ،وہ میں نے حاصل کر لیا ،لیکن مجھے معلوم ہوا کہ اصلی حقائق تک تعلیم کے ذریعہ سے نہیں ، بلکہ ذوق وحال اور حالات کی تبدیلی سے پہنچا جاسکتاہے، جو علوم میرا سرمایہ تھے خواہ شرعی ہوں یا عقلی ،ان سے مجھے وجودِباری ،نبوت اور معاد پر ایمان راسخ حاصل ہو چکا تھا ،لیکن یہ بھی کسی دلیل محض سے نہیں، بلکہ ان اسباب وقرائن اور تجربوں کی بنا پر جن کی تفصیل مشکل ہے ،مجھ پر یہ اچھی طرح واضح ہو چکا تھا کہ سعادتِ اُخروی کی صورت صرف یہ ہے کہ تقویٰ اختیار کیا جائے اور نفس کو اس کی خواہشات سے روکا جائے اور اس کی تدبیر یہ ہے کہ دارِ فانی سے بے رغبتی ،آخرت کی طرف میلان وکشش اور پوری یکسوئی کے ساتھ توجہ الی اللہ کے ذریعہ قلب کا علاقہ دنیا سے ٹوٹ جائے ،لیکن یہ جاہ ومال سے اعراض اور موانع وعلائق سے فرار کے بغیر ممکن نہیں ۔میں نے اپنے حالات پر غور کیا تو مجھے معلوم ہوا کہ میں سر تا پادُنیوی علائق میں غرق ہوں ۔میرا سب سے افضل عمل تدریس وتعلیم کا معلوم ہوتا تھا ،لیکن ٹٹولنے سے معلوم ہوا کہ میری تمام تر توجہ ان علوم کی طرف ہے، جو نہ اہم ہیں اور نہ آخرت کے سلسلے میں کچھ فائدہ پہنچانے والے ہیں ۔ میں نے اپنی تدریس کی نیت کو دیکھا تو وہ بھی خالص لوجہ اللہ نہ تھی ،بلکہ اس کا باعث ومحرک بھی محض طلب جاہ وحصول شہرت تھا ،تب مجھے یقین ہو گیا کہ میں ہلاکت کے غار کے کنارے کھڑاہوں ،اگر میں نے اصلاح حال کے لیے کوشش نہ کی تو میرے لیے سخت خطرہ ہے۔ “

اس کے بعدامام غزالی  اپنی اندرونی کش مکش،ایمان ونفس کی آویزش ،پھر اس کی وجہ سے اپنے مبتلائے امراض ہونے کا ذکر کرتے ہیں۔اس کے بعد بغداد سے نکلنے ،تدریس کو چھوڑنے ،لوگوں کے افسوس کرنے کا تفصیلی تذکرہ کرتے ہوئے اپنے دس سالہ مجاہدات کا اجمالاً ذکر کرنے کے بعد انھوں نے بطور خلاصہ کے تحریر فرمایاہے کہ :

”ان تنہائیوں میں مجھے جو کچھ انکشافات ہو ئے اور جو کچھ مجھے حاصل ہوا ،اس کی تفصیل اور استقصا تو ممکن نہیں، لیکن ناظرین کے نفع کے لیے اتنا ضرور کہوں گا کہ مجھے یقینی طور پر معلوم ہوگیاکہ صوفیہ ہی اللہ کے راستے کے سالک ہیں ،ان کی سیر ت ،ان کا طریق سب سے مستقیم اور ان کے اخلاق سب سے زیادہ تربیت یافتہ اور صحیح ہیں ۔اگر عقلاء کی عقل ،حکماء کی حکمت اور شریعت کے رمزشناسوں کا علم مل کربھی ان کی سیر ت واخلاق سے بہتر لانا چاہے تو ممکن نہیں ۔ان کے ظاہر و باطنی حرکات و سکنات مشکوٰة نبوت سے ماخوذ ہیں اور نورِ نبوت سے بڑھ کر روئے زمین پر کوئی نور نہیں جس سے روشنی حاصل کی جائے ۔“(المنقذ من الضلال)

یہ عاقل ترین عالم کی شہادت ہے اور بلا شبہہ صحیح اور قابل اعتماد ہے، جو لوگ تصوف کے منکر ہیں ان سے تو کچھ نہیں کہنا ہے ،لیکن جو حضرات اس کے قائل و معترف ہیں انھیں عملاً اس کی طرف متوجہ ہونا چاہیے، وہ زندگی بھی کوئی زندگی ہے جو صرف دنیا اور دنیاوی متاع و اسباب کے لیے بسر ہو،زندگی تو وہی ہے جو صرف اللہ کی رضا کے لیے ہو اور اس کی رضاجوئی کی عملی مشق کا نام تصوف ہے ۔

یہ صحیح ہے کہ بہت سے لوگوں نے غیر مخلصانہ طریق پر تصوف میں قدم رکھا اور انھوں نے اپنے اعمال و کردار سے اس پاک طریقہ کو بدنام کیا، لیکن کیا کچھ غلط افراد کی ناکردنی کے باعث اس ضروری عمل کو چھوڑ دیا جائے، ہرگز نہیں ۔تصوف انسان کو کہاں سے کہاں تک پہنچاتا ہے،اس کا بیان ایک بڑے صاحب علم وعقل اور زبردست دنیوی وجاہت کے مالک نواب صدر یا ر جنگ حضرت مولانا حبیب الرحمن خاں شیروانی علیہ الرحمہ کی زبانیسینے ! وہ اپنے زمانے کے مشہور شیخ طریقت حضرت مولانا فضل رحمن گنج مراد آبادی قدس سرہ‘ کی خدمت میں پہنچے تو ان کا کیا تاثر تھا، اسے ملاحظ فرمائیے اور اندازہ کیجیے کہ تصوف آدمی کو کن بلندیو ں تک پہنچادیا کرتا ہے، بشرطے کہ اس کو اخلاص و صدق کے ساتھ اختیار کیا جائے ۔فرماتے ہیں:

حضرت کی خدمت میں پہنچ کر دو زبردست خیالات میرے دل میں طاری ہوئے ،جن کے سبب یہ تو نہیں کہا جا سکتا کہ میں نے حضرت کا مرتبہ پہچان لیا ،لیکن یہ جانا کہ ہم میں اور ان میں سوائے ظاہری مشابہت کے اور کوئی مشابہت نہیں ،ہمارے خیالات سے ان کے خیالات الگ،ہمارے ارادوں سے ان کے ارادے جدا، ہمارے مشاغل سے ان کے مشاغل علیحدہ، ان کی امیدیں اور خوشیاں اور خوف اورمقصود اور ۔ آگ لکڑی کو جلاتی ہے ہم بھی دیکھتے ہیں او ران کے بھی پیش نظر ہے ، لیکن ہم کیا سمجھتے ہیں، ان کے ذہن میں کیا آتا ہے۔

اول خیال تو یہ تھا کہ مراد آباد دُنیا میں ہے اور گاؤں نہیں، قصبہ ہے، لیکن حضرت کی مسجد میں ایک دوسرا عالم نظر آتا تھا، دنیاوی معاملات کا کوسوں پتہ نہ تھا ، خود حضرت کی گفتار وکردار اور وہاں کے اہل قیام کے احوال سے (عام اس سے کہ وہ چند گھنٹوں کے لیے آئے ہوئے ہیں یاد و چار برس سے رہتے ہیں ) یہ معلوم ہوتا تھا کہ کچھ لوگ ایسے ہیں جو تعلقاتِ دنیوی سے کنارہ کر آئے ہیں ، حیدر آباد کے امیر وکبیر نواب خورشید جاہ بہادر جو 52 لاکھ کے معافی دار ہیں ، میرے پہنچنے سے صرف ایک روز پہلے وہاں آئے تھے ،مگر ان کا ذکر نہ تھا اور نہ کوئی وقعت ان کی کسی کے ذہن میں معلوم ہوتی تھی ، حالاں کہ کان پور اور بلہوران کے تذکروں کی صداؤں سے گونج رہے تھے اور ہر ایک سوسائٹی ( خواہ اعلیٰ ہو یا ادنیٰ) ان کے تذکروں کو اپنے جلسوں کا دلچسپ مبحث بنائے ہوئے تھی ، پھر یہ کس کا اثر تھا؟ آیا مراد آباد کے پانی کا ؟ ہر گز نہیں۔ وہاں کی خاک کا؟ ہر گز نہیں ۔ وہاں کے درودیوار کا؟ ہر گز نہیں ۔ حضرت کے ہاتھ پاؤں کا؟ ہر گز نہیں ۔ حضرت کے بالوں کا ؟ ہر گز نہیں ۔ البتہ اس کیفیت کا اثر تھا جو حضرت کے قلب میں تھی۔ وہ کیفیت کیا تھی ؟ اس سے کون واقف ہے اورکوئی کیا جانے ؟ مریض کا بدن بخار سے جلتا ہے ، مگر وہ سوائے اثر کے مؤثر کو نہیں جانتا۔ سبب کو تشخیص کرنا طبیب کا کام ہے ، ہم بدن پر ہاتھ رکھ کر گرمی محسوس کر سکتے ہیں ، مریض کو اپنا جسم گرم او رمنھ کا مزہ تلخ معلوم ہوتا ہے، لیکن یہ جاننا کہ یہ غلبہٴ صفراء کا نتیجہ ہے ، طبیب کا کام ہے۔

دوسرا خیال یہ تھا کہ خود میرا ذہن مجھ کو ذلیل سمجھتا تھا اور ہر چند حیرت سے غور کرتا تھا، لیکن کوئی وقعت اپنی میرے ذہن میں نہیں آتی تھی، دنیاوی جلسوں میں لفٹنٹ کے دربار دیکھے، رؤسا کے مجمع دیکھے، اہل علم کی مجلسیں دیکھیں، مگر کہیں اپنے نفس کو اتنا بے حقیقت نہیں پایا، اپنے اعمال ذمیمہ پر خود نفس ملامت کرتا تھا او راپنی بے مائیگی پر خود نفریں کن تھا، ہر شخص سے، خواہ وہ کوئی ہو، اپنے تئیں کم وقعت تصور کرتا تھا ، غرض کہ ایک عجیب حال تھا کہ پورا بیان میں آنا مشکل ہے۔ وہاں سے آنے پر یہ خیالات ایسے رہے جیسے کہ کسی دلچسپ خواب کا صبح کو خیال اور لطف ہوتا ہے ، رفتہ رفتہ یہ کیفیت زائل ہو گئی او رچند لمحے کے بعد پھر نفس امارہ انا ولا غیری اور ”ہمچومادیگرے نیست“ کے پھندے میں جاپھنسا، یہ خیال میرے نزدیک محض نئے اور نرالے تھے، جو مدت العمر میں کسی اورجگہ کبھی نہیں پیدا ہوئے ، اس سے قیاس چاہتا ہے کہ وہ جگہ بھی کچھ اور جگہوں سے نرالی تھی… الله بس باقی ہوس۔“ (تذکرہٴ فضل رحمن گنج مراد آبادی)

غور کیجیے! یہ نرالی جگہ ، یہ نرالی کیفیت او رخیال ! کس چیز کا اثر ہے ، حضرت مولانا فضل رحمن گنج مراد آبادی کے قلب میں وہ کیفیت کہاں سے طاری ہوئی ، اس کا سرچشمہ بجز تصوف کے اور کیا ہے؟ ان کو تصوف ہی نے مرصع کیا تھا او راس چیز کو ان کی زندگی سے نکال دیجیے تو دیکھیے کیا بچتا ہے؟

تصوف ہمارا بہت قیمتی سرمایہ ہے ، ایک لازوال دولت ہے ، اس راہ سے بندہ اپنے رب سے واصل ہوتا ہے ، تصوف شریعت سے الگ کوئی چیز نہیں ہے، وہ آدمی میں شریعت کے رچ بس جانے کا ایک بے بدل ذریعہ ہے۔ اس کے بنیادی ارکان پانچ ہیں صحبت شیخ۔ علم شریعت۔ ذکر کی کثرت۔ فکر کا التزام۔ اورامراضِ نفسانی کا علاج۔ ان میں کون سی چیز قابل اعتراض ہے او رکون سی بات شریعت کے باہر ہے؟ 
Flag Counter