مسئلہ معاش اور اسلامی تعلیمات
مفتی ابو الخیر عارف محمود
رفیق شعبہ تصنیف وتالیف واستاذجامعہ فاروقیہ کراچی
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ تعالی کا قول
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں:
”زناکی اجرت خبیث ہے اورآپ صلی الله علیہ وسلم نے کاہن کواجرت دینے اورمغنیہ کے کسب سے منع فرمایاہے،اس کی دوحکمتیں نظرآتی ہیں،ایک تویہ کہ ممنوعہ کسب اختیارکرنے سے لوگوں کومعصیت کی ترغیب ملتی ہے،جب کہ اس مال کی حرمت اوراس سے انتفاع کی ممانعت لوگوں کواس برائی سے روکنے کاسبب بنتی ہے“۔
چندسطروں کے بعدفرماتے ہیں:
”الإعانة فی المعصیة وترویجہا وتقریب الناس إلیہا معصیة وفسادفی الأرض“․ (الدہلوی، أحمدبن عبدالرحیم شاہ ولی اللہ، حجة اللہ البالغة، باب البیوع المنہی عنہا، وجوہ کراہیة البیوع:288/2،زمزم پیلشرز کراتشی)
(ترجمہ)”گناہ کے کام میں معاونت اوراس کی ترویج اور لوگوں کو گناہ کے قریب کرنا(یعنی اس کاماحول فراہم کرنا)اللہ کی نافرمانی اورزمین پرفسادپھیلانے کاباعث ہے“۔
ناپ تول میں کمی کی حرمت
ناپ تول میں کمی ایک ایسی لعنت ہے جس میں آج کے لوگوں کی طرح بعض امم سابقہ کے تجاربھی مبتلاتھے،اللہ تعالی نے ہرزمانے میں جب یہ قبیح عادت لوگوں میں رائج ہوئی تووقت کے نبی کے ذریعے اس کی مذمت کی اوراس سے بازرہنے کاحکم دیا،سورہ اعراف میں حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم کواس قبیح حرکت سے بازرہنے کاحکم دیاگیاہے۔ (الأعراف:85)
ناپ تول میں کمی یہ ایسامکروہ حیلہ ہے جس کے ذریعے تاجرکم مال دے کرزیادہ دام وصول کرلیتے ہیں،قران مجیدمیں اس حوالے سے ارشادباری تعالی ہے:
﴿وَیْْلٌ لِّلْمُطَفِّفِیْنَ، الَّذِیْنَ إِذَا اکْتَالُواْ عَلَی النَّاسِ یَسْتَوْفُونَ، وَإِذَا کَالُوہُمْ أَو وَّزَنُوہُمْ یُخْسِرُون﴾․(المطففین:3-1)
(ترجمہ)”خرابی ہے گھٹاکردینے والوں کے لیے ،وہ لوگ کہ جب دوسروں سے مال لیں توپوراپورالیں اورجب دوسروں کوناپ کریاتول کردیں تو کم دیں“۔
اسلام توناپ تول میں عدل وانصاف سے آگے بڑھ کرلوگوں کے ساتھ مزیداحسان کادرس دیتاہے ،آپ صلی الله علیہ وسلم نے ا سی بات کی تعلیم دیتے ہوئے ارشادفرمایا:”زن وارجح“۔(القزوینی، أبوعبداللہ محمد بن یزید، سنن ابن ماجة،کتاب التجارات، باب الرجحان فی الوزن۔(رقم الحدیث:222) :562/3، دارالجیل ،بیروت 1418ھ) (ترجمہ)”تول اورجھکتاتول“۔
ناپ تول پوراپورادینے سے خوش گوارمعاشرتی نتائج برآمدہوتے ہیں،لوگ ایک دوسرے پراعتمادکرنے لگ جاتے ہیں اورتعلقات میں بہتری پیداہوجاتی ہے،اسلام اپنے ماننے والوں کوہمیشہ سے اس بات کی تعلیم دیتا ہواآیاہے کہ وہ نہ صرف ناپ تول میں عدل وانصاف سے کام لیں،بلکہ مزیداحسان کرنے کواختیارکریں۔
معیشت سے متعلق اسلامی احکامات کاسیکھنا
اس کے علاوہ معیشت کے اسلامی احکام میں خریدوفروخت سے متعلق عاقدین(معاملہ کرنے والے)کی اہلیت،رضامندی،خریدوفروخت میں اختیار،شرائط،بیع کی جملہ اقسام،مرابحہ،سلم،قبضہ کے مسائل،شرکت ومضاربت،قرض وتجارتی معاہدات، حتی کہ غیرمسلموں سے بھی معاشی معاملات کے حوالے سے مکمل تفصیلات موجودہیں،ضرورت اس بات کی ہے کہ ان کوسیکھ کرعمل کیاجائے، تاکہ ایک بہترین اورمتوازن معیشت وجود میں آئے۔
خیرالقرون کے زمانہ میں اس بات کاباقاعدہ اہتمام کیاجاتاتھاکہ لوگ معیشت سے متعلق اسلام کے احکامات کوسیکھنے کے بعدمارکیٹ اور بازارمیں آئیں،جولوگ اس حوالے سے اسلامی تعلیم سے بے بہرہ ہوتے انہیں بازارمیں خریدوفروخت کے لیے بیٹھنے سے منع کیاجاتاتھا،حضرت عمررضی اللہ عنہ سے یہی بات منقول ہے:
”کان عمربن الخطاب یضرب بالدرة من یقعد فی السوق وہولایعرف الأحکام، ویقول:لایقعد فی سوقنا من لایعرف الربا“․ (الکتانی، عبدالحی، نظام الحکومة النبویة المسمی ب ”التراتیب الإداریة، القسم التاسع، حتی یتعلموا أحکامہ وآدابہ وما ینجی من الربا:18/2،دارالکتاب العربی،بیروت)
(ترجمہ)”حضرت عمررضی اللہ عنہ ایسے شخص کو درہ سے مارتے جو بازار میں آکر (خریدوفروخت)کے لیے بیٹھتا،مگروہ ان کے احکام سے جاہل ہو اورفرماتے:جوشخص ربا(سود)کے احکام نہیں جانتاوہ ہمارے بازارمیں نہ بیٹھاکرے“۔
اس زمانے میں باقاعدہ محتسب(بازارکانگران) مقررکیاجاتا تھا،جوبازارمیں گھوم پھرکرمختلف دکان داروں سے بیع وشراء کے متعلق سوالات کرتا،اگرکسی کواحکام کاعلم نہ ہوتاتووہ اسے دکان سے اٹھادیتاتھا۔امام مالک رحمہ اللہ امراء کویہ ہدایت فرماتے تھے کہ وہ تجارکواکٹھاکرکے ان کے سامنے پیش کریں،آپ ان میں کسی کواس حوالے سے جاہل پاتے تواس سے ارشادفرماتے:”پہلے خریدوفروخت کے احکام سیکھو، پھر بازارمیں آکر بیٹھو“۔ (حوالہ سابق:19/2)
قارئین کرام!جب تک اسلامی خلافت وحکومت قائم تھی تو مسلمانوں نے جیسے زندگی کے دیگر شعبوں میں قابل تقلیداوربے مثال کارنامے سرانجام دیے،ایسے ہی معیشت اورکفالت عامہ کے حوالے سے بھی ایسابھرپورکرداراداکیاکہ رہتی دنیا تک کوئی اس کی مثال پیش نہیں کر سکتا، مسلمان حکم رانوں اورارباب حل وعقدکی جہاں یہ کوشش ہوتی تھی کہ تجارمعیشت کے احکام سیکھ کرتجارت کریں؛تاکہ سوداوردیگرناجائزوحرام معاملات سے بچ سکیں،وہاں کفالت عامہ کاایساجامع نظام ترتیب دیاجس میں بلاکسی تخصیص واعتبارمعاشرے کے ہرفردکوکسی نہ کسی شکل میں اتناسامان معاش ہرحال میں ضرورمیسرہو،جس کے بغیرعام طورپرکوئی بھی انسان نہ اطمینان کے ساتھ جی سکتاہے اورنہ ہی اپنے متعلقہ فرائض وحقوق سرانجام دے پاتاہے۔(مروجہ تکافل کاجائزہ،باب اول،اسلام کانظام کفالت، ص:10،دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی ،غیرمطبوع)
ان حضرات نے اسلام کے دیے ہوئے مقدس اورپاکیزہ احکام کوعملی طورپرنافذکیا،جس کی وجہ سے ملکی اورقومی دولت کی گردش چندمال داروں اوربڑے مال دارلوگوں تک محدودہونے کے بجائے معاشرے کے تمام طبقات تک پہنچی، خصوصاًغربا اورمستحقین کواس سے بھرپورطورسے مستفید ہونے کاموقعہ ملا،یہاں یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ اسلام افراد معاشرہ کے درمیان جس معاشی مساوات کوپیداکرناچاہتاہے وہ یہ نہیں کہ معاشرے کے تمام افراددولت وثروت میں یکساں اوربرابرہوں،جتنی دولت اوروسائل معاش ایک فردکے پاس ہوں،اتنے ہی دیگرتمام کے پاس بھی ہوں،کیوں کہ ایسی مساوات خیالی دنیامیں توممکن ہے،لیکن حقیقت کی دنیامیں ایسانہ توممکن ہے اورنہ ہی سنت الہیہ کے مطابق ؛کیوں کہ اللہ تعالی نے درجات معیشت میں تفاوت کاجونظام قائم فرمایاہے،وہ اس کے ذریعے اپنے بندوں کو آزما رہے ہیں کہ کون اس کابندہ ہے اورکس نے مادے کوالٰہ بنایاہواہے۔
اسلام میں دولت کے بہاؤ کا رخ
اسلام کے بتائے ہوئے اصول وضوابظ کے مطابق معیشت میں ہمیشہ دولت کابہاؤاوپرسے نیچے کی طرف رہتاہے،دولت وسرمایہ سمٹ کرچندمخصوص ہاتھوں میں کھلونا بننے کے بجائے معاشرے کے ہرفردکی پہنچ میں ہوتاہے،اگرکسی خطے میں بھی اسلامی نظام حکومت نافذکردیا جائے اور کفالت عامہ کے شعبوں میں سے صرف زکوة کاعمل ہی صحیح معنوں میں شروع ہوجائے،توسوفیصدیقین سے کہاجاسکتاہے کہ وہ خطہ ہرطرح کے افلاس اورمعاشی بدحالی سے پاک ہوجائے گااورپھرسے قرون اولی کی یادتازہ ہوجائے گی کہ معاشرہ میں پھرزکوة کابھی کوئی محتاج نہیں رہے گا۔
اسلام میں معیشت وکفالت عامہ
اسلام میں معیشت کے احکام کوجاننے اوراسلام میں کفالت عامہ کے تصورکوسمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم قرآن وحدیث اورفقہ اسلامی میں مذکوربیوع اور اس کی اقسام، قرض، سود، لین دین، ہبہ، عاریت، مضاربت، شرکت، مزارعت،پانی کے احکام،زمینوں کے احکام،زکوة کی فرضیت، وصولی اورتقسیم کے مسائل،غنائم ،فئ،خراج اورجزیہ کے احکام،تقسیم دولت، وراثت،حلال وحرام،اجارہ ،احتکارواکتنازکی ممانعت،ضرائب ونوائب،صدقات نافلہ اوران سے متعلقہ دیگر تمام مضامین کابغورمطالعہ کریں،تاکہ علی وجہ البصیرة مذکورہ نظام کوسمجھاجاسکے ،اس فقہی معاشی خزانہ کے علاوہ مسلمان علمائے کرام نے اس حوالے سے مستقل تصانیف بھی چھوڑی ہیں، جواپنی جامعیت کے اعتبارسے مختلف مسائل کاحل بتاتی ہیں،افسوس! صد افسوس!کہ ان کتب کاترجمہ یورپ کے مستشرقین اپنی اپنی زبانوں میں کرکے ان سے استفادہ کررہے ہیں اورہم مسلمان اپنے اس وقیع علمی ورثے سے غافل ہیں۔
ان گراں قدرکتب میں سے چندیہ ہیں:
(۱)کتاب الأموال:حمیدبن زنجویہ اورابوعبیدقاسم بن سلام رحمہم اللہ کی ایک ہی عنوان سے الگ الگ تصنیف ہے۔
(۲)کتاب الخراج:امام ابویوسف اوریحییٰ بن آدم القرشی رحمہما اللہ کی مایہ نازتصانیف ہیں۔
(۳)الأحکام السلطانیة:ابوالحسن علی بن حبیب البصری اورابویعلی محمدبن حسین الفراء کی بیش بہااورمستندکتب ہیں۔
(تفصیلی تعارف کے لیے دیکھیے:اسلام کامعاشی نظام، ڈاکٹرنورمحمدغفاری، اسلامی معاشیات کے مصادرومراجع:57-43،مرکزتحقیق دیال سنگھ ٹرسٹ لائبریری،لاہور1994ء)
اسلام جواپنی حقانیت اورسچائی کی وجہ سے مختصرسے عرصے میں جزیرہ عرب سے نکل کرسارے عالم پرچھاگیااورہزاروں سال تک دنیاپرحکم رانی کی، لوگوں کوہدایت کی راہیں دکھائیں، زندگی کے تمام شعبوں میں بہترین قابل تقلیدکارنامے انجام دیے،باطل روزاول سے ہی اس سے نالاں تھا،اس نے ہرممکن کوشش اورسازش کے ذریعہ یہ چاہاکہ اسلام کامقدس نظام زندگی خطہ ارض پرنافذ نہ رہے،وگرنہ لوگ اسلام کے نظام زندگی کے محاسن کی وجہ سے نہ صرف دیگرتمام باطل نظاموں کو ٹھکرا دیں گے، بلکہ خود مذہب اسلام کے پیروکار بن بیٹھیں گے، چھٹیصدی عیسوی کو وجود میں آنے والے نظام زندگی کومٹانے کے لیے دنیانے کیاکیانہ کیا!!،تاریخ کاہرادنی طالب علم اس سے پوری طرح واقف ہے۔
افسوس! خلافت کے زوال کے بعدسے دنیائے باطل کواس بات کابھرپورموقع ملاکہ وہ اسلام اوراس کے پاکیزہ نظام کے خلاف کھل کرپروپیگنڈہ کرے اوراسے ایک ناقص اورپرانے زمانے کانظام قراردے، خاص کرمعاشیات کے شعبے میں نئے نظریات متعارف کرواکے اس نے انسانیت کوجس دردناک عذاب میں مبتلاکیاہے اس کاصرف اورصرف ایک ہی حل ہے اوروہ اسلامی نظام حکومت، یعنی خلافت ہے۔
فقدان ِخلافت کے نقصانات
اب چوں کہ بدقسمتی سے اور بوجہ شامت اعمال ہمارے سامنے کوئی ایساماڈل اسلامی طرزحکومت وخلافت کاموجودنہیں کہ عملی طورسے جس میں زندگی کے دیگرشعبوں کی طرح معاش کانظام بھی عملی طورسے نافذہوتااورتمام طبقات کے لوگوں کی کفالت عامہ کاکوئی عملی مظہرسامنے موجودہوتا،توہم عالم انسانیت کوبتادیتے کہ اسلام نے معیشت کے مسائل کا یوں حل بتایاہے۔خیر!اسلام چوں کہ قیامت تک کے لیے راہ نمائی اوررہبری کرنے آیاہے،تواب ہم اسلام کے اصول وضوابط ہی کی روشنی میں موجودہ جدیدنظریات کوپرکھیں گے اوران کے صحیح اورغلط ہونے کافیصلہ کریں گے۔
جدیدمعاشی نظریات میں بینک اورکمپنی کومرکزی حیثیت حاصل ہے،پھران دونوں سے سینکڑوں مسائل نے جنم لیاہے،ان میں سے ایک کریڈٹ کارڈاوراس طرح کے دیگرکارڈزکے ذریعے معاملات کانجام دیناہے۔
جدیدمعاشی نظریات سے پیداشدہ مسائل
آج کی دنیاصنعتی انقلاب کے بعدتکنیکی اعتبارسے بہت آگے جا چکی ہے،تجارت اورسرمایہ کاری کی اس قدرجدیداورمتنوع شکلیں پیدا ہوچکی ہیں جن کی ماضی میں کوئی نظیرنہیں ملتی،مثلابینکنگ کانظام،کرنسی کا نظام، موجودہ عالمی تجارت کانظام،کریڈٹ کارڈزکانظام، انشورنس اور تکافل، شیئرز کی خریدوفروخت کانظام اوران سب نظاموں کوچلانے کے لیے اداروں،فرموں اورکمپنیوں کانظام وغیرہ۔(شیئرزکی شرعی حیثیت اوراس کے احکام،مقدمہ، ص :2,1،دارالإفتاء جامعہ فاروقیہ کراچی، غیرمطبوع )
اس طرح کے تجارتی مسائل میں ایک اہم مسئلہ یہ ہے کہ کیاخریدی ہوئی شے پرقبضہ کرنے سے پہلے اس کوفروخت کیاجاسکتاہے یانہیں؟اوراس کامنافع حاصل کرناجائزہوگایانہیں؟آج قبضہ کے عنوان سے بہت سارے مسائل پیداہورہے ہیں،کیاچیک،ڈرافٹ،کریڈٹ کارڈیادوسری سندات مالی کوقبضہ تصورکیاجائے گایانہیں؟یاکریڈٹ کارڈکے ذریعہ ادائیگی کوفوری قبضہ تسلیم کیاجائے گایانہیں؟بین الاقوامی تجارت میں آج زیادہ ترمعاملات، فیکس اورای میل کے ذریعے انجام پارہے ہیں،کروڑہاکروڑ روپے کے معاملات اور لین دین طے پاتے ہیں،جب کہ ہر دو فریق ہزارہامیل کی دوری پرہوتے ہیں،اسی طرح ایک ملک کاتاجردوسرے ملک میںLC (سنداعتماد)کھلواکرکاروبارکرتاہے،دوسرے ملک کاتاجرمال کاشپمنٹ (Shipment)کرتاہے اورقبل اس کے کہ مال خریدارتک پہنچے،خریداریہ محسوس کرتے ہوئے کہ بازارمیں تیزی آچکی ہے،اگرمیں ابھی اس مال کوفروخت کرڈالوں تومجھے زیادہ نفع ملے گا،وہ اس مال کواپنے قبضہ میں آنے سے قبل ہی( جب کہ مال راستہ میں ہوتاہے)،فروخت کرڈالتاہے۔
(جدیدتجارتی شکلیں،مولانامجاہدالاسلام قاسمی صاحب،ابتدائیہ،ص:8,7 ادارة القرآن والعلوم الإسلامیة،کراچی)
عصر حاضر میں ان تمام جدیدصورتوں میں زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کرنامقصودہوتاہے،معاملات میں عدل وقسط کی رعایت کم سے کم، یامعدوم ہے اورغرراوردھوکہ عام ہے ،نہ ذہنوں میں خداکاتصورہے،نہ آخرت کی جواب دہی کی فکر،اس لیے تجارت کے رائج طریقوں میں صرف مادی اورنقدنفع مطلوب رہ گیاہے۔(،حوالاسابق)
ایک متوازن معاشی نظام کو وجود دینے کے لیے ضروری ہے کہ اسلامی نظام خلافت کوقائم کیا جائے اور معیشت سے متعلق تمام اسلامی احکامات کو عملی شکل دی جائے۔