Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق ربیع الثانی 1434ھ

ہ رسالہ

15 - 18
سلام کرنے کے آداب اور فضیلت
مولانا حافظ فضل الرحیم
عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرةَرَضِی اللّٰہ تعالیٰ عنہ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: لَا تَدْخُلُوْنَ الْجَنَّةَ حتّٰی تُوٴْمِنُوْا وَلَا تُوٴْمِنُوْا حتّٰی تَحَابُّوا، اَولَا اَدُلُّکُمْ عَلٰی شيءٍ اِذَا فَعَلْتُمُوْہُ تَحَابَبْتُمْ؟ اَفْشُوا السَّلَامَ بَیْنَکُمْ․ (روا ہ مسلم)
”حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے روایت فرماتے ہیں، ارشاد نبوی صلی الله علیہ وسلم ہے کہ جب تک تم ایمان نہ لاؤ جنت میں داخل نہیں ہو سکتے اور تم ایمان نہیں لاؤ گے جب تک کہ آپس میں محبت نہ کرو‘کیا میں تمہیں ایسی چیز نہ بتلاؤں کہ جب تم وہ کرو تو آپس میں محبت کرنے لگو؟ فرمایا کہ تم اپنے درمیان سلام کو پھیلاؤ۔“  (اس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے۔)

شریعت اسلامی میں سلام سے مراد وہ کلمات ہیں جو دو مسلمان ملاقات کے وقت کہتے ہیں ۔ایک شخص السلام علیکم اور دوسرا وعلیکم السلام کہتاہے۔یعنی پہلا شخص کہتا ہے آپ پر سلامتی ہو اور دوسرا جواب میں کہتا ہے آپ پر بھی سلامتی ہو۔اس دعائیہ کلمہ کا آغاز حضرت آدم علیہ السلام سے ہوا۔جیسا کہ حضرت ابو ہریرہ  سے روایت ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا کیا تو آدم علیہ السلام کو حکم دیا کہ فرشتو کو سلام کریں ۔پھر فرشتوں نے سلام کا جواب بھی دیا۔اس کے بعد حضرت آدم علیہ السلام اللہ رب العزت کی بارگاہ میں حاضر ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہی تمہارا اور تمہاری اولاد کا سلام ہے۔چناں چہ بعد میں تمام انبیائے کرام علیہم السلام کا سلام یہی رہا۔

زمانہٴ اسلام سے پہلے، عرب کے لوگ سلام کرنے کے لیے مختلف الفاظ استعمال کرتے تھے ۔کچھ لوگ ”حیاک اللہ“ کہتے ،کچھ”انعم صباحا“ کہتے،لیکن رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے یہ الفاظ ختم کروادیے اور السلام علیکم کے وہ الفاظ جاری فرمائے جن کی تعلیم اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کودی تھی۔

اس تحقیق سے معلوم ہوا کہ السلام علیکم کے الفاظ ملاقات کے وقت استعمال کرنا شعائر اسلام یعنی اسلام کی نشانیوں میں سے ہے ۔ لہذااگر کوئی ملاقات کے وقت صبح بخیر ،شب بخیر یا گڈ مورننگ یا آداب وغیرہ کے الفاظ اختیار کرے تو اس سے سلام ادا نہیں ہوتا اور نہ اسے سلام کہتے ہیں ۔چوں کہ السلام علیکم کہنا اسلام کی نشانی ہے، اس لیے کافر کو ملتے وقت السلام علیکم نہیں کہیں گے ،بلکہ”اَلسَّلامُ عَلیٰ من اتّبَعَ الْھُدَی“ کہیں گے جس کا مطلب ہے کہ اس شخص پر سلامتی ہو جو ہدایت کی پیروی کرے۔رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کفار سے خط و کتابت کے وقت اسی انداز میں سلام لکھواتے تھے۔

سلام کرنے کے بارے میں یہ بات ضرور ذہن میں رکھنی چاہیے کہ ہر مسلمان سے ملاقات کے وقت سلام کرنا سنت ہے، لیکن کوئی سلام کرے تو اس کو جواب دینا واجب ہے۔ سلام میں پہل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے ۔سوار شخص پیدل چلنے والے کو سلام کرے‘ کھڑا ہوا بیٹھے ہوئے کو اور گزرنے والا بیٹھے ہوئے کو سلام کرے، چھوٹا بڑے کو سلام کرے اور جب کوئی شخص راستہ میں بیٹھا ہو تو اُسے چاہیے کہ سلام کرنے والے کا جواب دے ‘ جب کوئی شخص گھر میں داخل ہو تو سلام کرے اور جب باہر آئے ، تو سلام کرکے آئے، ہر واقف اور ناواقف کو سلام کریں ۔لیکن اگر کوئی شخص نماز پڑھ رہا ہو یا تلاوت کررہا ہو یا کھانے میں مشغول ہو یا قضائے حاجت کررہا ہو یا نہار ہا ہو تو اُسے سلام نہ کرنا چاہیے۔ اگر آنے والا سلام کرے تو ایسے شخص کو جواب نہ دینا چاہیے۔

ایک اور بات عام طور پر دیکھنے میں آئی ہے کہ جب کوئی شخص کسی کمرہ میں داخل ہونا چاہتا ہے تو پہلے پوچھا جاتا ہے کہ کیا اند ر آسکتا ہوں ؟پھر اندر آکر سلام کرتے ہیں، حالاں کہ رسو ل الله صلی الله علیہ وسلم نے ہمیں یہ تعلیم دی کہ جب کوئی شخص کسی کے ہاں جائے تو پہلے سلام کرے، پھرپوچھے کیا میں اندر آسکتا ہوں؟ اگر ہم اس ہدایت پر تھوڑی سی توجہ کے ساتھ عمل کرنا شروع کردیں تو ہمیں سنت نبوی صلی الله علیہ وسلم پر عمل کرنے کا ثواب بھی مل جائے گا۔اور ہمارا اسلامی طریقہ بھی رائج ہوجائے گا۔

اللہ رب العزت ہمیں ان تمام آداب کو مد نظر رکھ کر سلام کرنے کی توفیق عطا فرمائے، تاکہ ارشاد نبوی صلی الله علیہ وسلم کے مطابق ہمارے اندر آپس میں محبت پیدا ہو جائے اور ہم سچے مسلمان بن جائیں۔ 
Flag Counter