Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق ربیع الثانی 1434ھ

ہ رسالہ

12 - 18
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ
متعلم بابر خان

آپ رضی اللہ عنہ کا اسم گرامی عبداللہ ابن ابی قحافہ عثما ن بن عامر بن عمرو بن کعب بن سعد بن تمیم بن مرّہ بن کعب بن لوّی بن غالب القریشی التمیمی ہے۔نسب کے لحاظ سے آپ اور رسو ل اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مرّہ بن کعب کی اولاد ہیں۔آپ  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلیفہ تھے ۔آپ کا لقب ”صدیق“تھا۔

زمانہ جاہلیت میں ہی آپ اس لقب سے ملقب تھے۔کیوں کہ آپ ہمیشہ سچ کہا کرتے تھے۔بعض نے لکھا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطلاعات پر آپ  فوراً ہی مہر صداقت ثبت کردیتے تھے ،اس لیے آپ کو صدیق کہتے تھے ۔شب معراج میں ”مقام طُوی“میں پہنچ کر رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جبرائیل امین سے فرمایا کہ اس واقعے کی تصدیق میری ملت نہیں کرے گی ۔جبرائیل علیہ السلام نے جواب دیا آپ کی تصدیق حضرت ابو بکر کریں گے۔جو صدیق ہیں۔

حکیم بن سعید لکھتے ہیں کہ میں نے حضرت علی کو قسمیہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ حضرت ابو بکر کا لقب ”صدیق“اللہ نے آسمان سے نازل فرمایا۔ حدیث احد میں ہے۔تسکین وقرار سے کام لو، کیوں کہ تم پر امت مسلمہ کینبی و صدیق اور دو شہید ہیں ۔

ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے ان سے کہاکہ صدیق اکبر کا سراپا بیان فرمائیں ۔تو جواباًکہاوالد بزرگوار کا رنگ سرخ و سفید ،جسم چھریرا،رخساردبے ہوئے،پیٹ اندر،پیشانی عرق آلود رہتی۔چہرہ پر گوشت زیادہ نہ تھا۔نظریں نیچی رکھتے تھے۔بلند پیشانی تھی، انگلیوں کے جوڑ پر گوشت نہ تھا ۔آپ ”مہندی“ اور ”کسم“کا خضاب لگاتے ۔ یہ آپ کا مختصر سا سراپا ہے۔

ابن اسحاق نے عبداللہ بن حصین تمیمی کے ذریعے بیان کیا ہے۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایاکہ میں نے جس کو اسلام کی دعوت دی تو اس نے تردد اور غور وفکر کیا۔اور بمشکل سننا پسند کیا۔لیکن ابو بکر صدیق نے اسلام کی دعوت پرادنی توقف کیے بغیر لبیک کہا۔ علماء کا متفقہ بیان ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق  اسلام لانے کے بعد سے رحلت سرور دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم تک سفر و حضر میں ہمیشہ آپ صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ رہے۔البتہ حج اور جہاد کے لیے بااجازت آپ کی صحبت میں نہ رہ سکے ۔ہر حال میں ہر وقت آپ صلی الله علیہ وسلمکے ساتھ رہا کرتے تھے ۔آپ نے اہل و عیال کو چھوڑ کر اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خوش نودی کے لیے رسول صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ ہجرت کی۔ غارحرامیں ساتھ رہے۔جیسا کہ قرآن کریم میں ہے:”غار میں دو ہی تھے جب کہ رسول صلی الله علیہ وسلم نے اپنے دوست سے کہا۔ خوف وغم نہ کرو کیوں کہ اللہ ہمارے ساتھ ہے“۔

امام بزارسے نے سند کے حوالے سے لکھا ہے؟کہ حضرت علی سے دریافت کیا گیا کہ سب سے زیادہ بہادر کون ہے؟لوگوں نے فرمایا آپ ہیں۔فرمایا میں تو اپنے برابر سے لڑتا ہوں۔یہ بتاؤ سب سے زیادہ بہادر کون ہے؟لوگوں نے کہا ہمیں معلوم نہیں۔آپ ہی بتادیں ۔تو فرمایا ابوبکر سب سے زیادہ بہادر ہیں۔جنگ بدر میں ہم لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ایک حفاظت گاہ سی بنائی تھی۔پھر ہم نے باہم کہاکہ آپ صلی الله علیہ وسلمکی خدمت میں کوئی شخص کمر بستہ رہے ۔تاکہ کوئی مشرک حملہ کی خواہش سے یہاں نہ آسکے۔بخدا ہم سے کوئی شخص بھی اس کے لیے تیار نہیں ہوا تھا۔کہ حضرت ابو بکر صدیق  ”شمشیر بکف“آگے بڑھ گئے اور ننگی تلوار لیے پہرہ دیتے رہے۔ اگر کوئی مشرک بری نیت سے آتا ۔تو آپ فوراً ہی اس پر جھپٹ پڑتے ۔

آپ  تمام صحابہ کرام  میں سب سے زیادہ سخی تھے۔ابن عسا کرنے عائشہو عروہ بن زبیر کے حوالے سے لکھا ہے کہ آپ اسلام قبول کرتے وقت چالیس ہزار دینار کے مالک تھے۔سب کے سب آپ صلی الله علیہ وسلم پر صرف کردیا۔لیکن جب آپ صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ ہجرت کی۔تو اس وقت پانچ ہزار درہم سے زیادہ باقی نہ تھے۔آپ  نے تمام دولت مسلمان غلاموں کو آزاد کرنے میں اور اسلام کی مدد میں خرچ کردی۔ایک دن جبرائیل امین علیہ السلام دری کی طرح ایک کپڑااپنے سینے پر ڈالے ہوئے آئے، جس پر آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا جبرائیل !یہ کیا حالت ہے؟

تو انہوں نے عرض کیاکہ اللہ تعالیٰ نے تمام فرشتوں کو حکم دیا ہے کہ اس طرح کا لباس پہن لو جیسا کہ صدیق اکبر پہنے ہوئے ہیں ۔اکثر روایات میں آتا ہے صدیق اکبر نے اپنا پورا مال اور سرمایہ اسلام کی راہ میں خرچ کیا ہے۔شیخ ابو اسحاق نے اپنی کتاب طبقات میں لکھاہے کہ حضرت ابو بکر صدیق تمام صحابہ  میں سب سے بڑے عالم تھے ۔کیوں کہ صحابہ جب کسی مشکل مسئلہ کا حل نہ کرسکتے تو اس کا صدیق اکبر سے حل دریافت کرلیتے اور آپ کے فیصلہ کے مطابق ہی عمل کرتے تھے۔

حضرت عبداللہ بن عمر فرماتے ہیں کہ عہد رسالت میں صدیق اکبر فتویٰ دیا کرتے تھے اور وہ صحابہ  میں سب سے زیادہ بڑے عالم تھے۔ابن کثیر کا بیان ہے کہ آپ سب سے زیادہ فصیح مقرر تھے۔آپ تمام صحابہ  میں نہایت اعلیٰ گفتارو کردارکے مالک تھے۔عقل کامل کے حامل اور صائب الرائے تسلیم کیے گئے،عمروبن العاص  فرماتے ہیں۔میں نے خود آپ صلی الله علیہ وسلم کو فرماتے سناجبرائیل علیہ السلام نے مجھے سے کہا اللہ تعالیٰ آپ صلی الله علیہ وسلمکو حکم دے رہا ہے کہ آپ ابو بکر سے مشورہ کرتے رہیں۔

علمائے اہل سنت کا اتفاق ہے کہ رسول صلی الله علیہ وسلمکے بعد ابوبکر  سب سے زیادہ افضل و برتر ہیں ۔اور آپ کے بعد علی التر تیب فاروق اعظم،عثمان غنی،عشرہ مبشرہ،اہل بدر،اہل احد ،اہل حدیبیہ افضل ہیں ۔جن کو باقی دیگر پر برتری حاصل ہے ،عبداللہ بن عمرو فرماتے ہیں کہ آپ کے زمانہ میں ہم لوگ ابو بکر کو برتر سمجھتے تھے۔

حضرت انس سے روایت ہے آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا۔میری امت میں میرے اُمتیوں کے ساتھ سب سے زیادہ مہربانی کرنے والے، رحم دل ابو بکر صدیق ہیں۔ قرآن کریم میں بے شمار آیات صدیق اکبر کی تعریف اور عظمت میں وارد ہوئی ہیں۔اسی طرح بے شمار احا دیث میں بھی آپ کی عظمت اور تعریف وارد ہوئیں۔

حضرت عمر کا بیان ہے کہ رسول صلی الله علیہ وسلم کی رحلت پر کچھ عرب مرتد ہوگئے اور انہوں نے کہا ہم تو نماز پڑھیں گے۔لیکن زکوٰة نہیں دیں گے۔میں نے یہ واقعہ صدیق اکبر سے بیان فرمایا۔”اے خلیفة الرسول!“ تالیف قلوب کے لیے لوگوں پرنرمی فرما دیں ۔کیوں کہ یہ جانوروں کی مانند ہیں۔صدیق اکبر نے جواباًکہا۔اے عمر!تم سے تو مجھے امداد کی توقع تھی ۔تم یہ کمزوری کیوں دکھا رہے ہو۔زمانہ جاہلیت میں تم بڑے قوت دار تھے، زمانہ اسلام میں یہ کمزوری کسی؟

پھر فرمایا جب تک میرے ہاتھ میں تلوارہے۔بخدا زکوٰة نہ دینے والوں سے جہاد کروں گا۔یہاں تک وہ زکوٰة کی پوری رقم ادا کریں ۔اس طرح اس فتنہ کو دور کردیا۔

حضرت عائشہ  فرماتی ہیں۔آپ صلی الله علیہ وسلم رحلت کے بعد نفاق کی بلا پھوٹ پڑی۔ اورمنافقت نے سر اٹھایا ۔عرب مرتد ہونے لگے۔ انصار یکسو ہو کربیٹھ گئے۔اگر اتنی مصیبتیں مضبوط وبلند پہاڑوں پر پڑتیں تو وہ بھی ریزہ ریزہ ہوجاتے ۔لیکن والد صدیق اکبر نے نہایت مستعدی واستقلال سے مشکلات کا حل نکالا۔

پہلا فتنہ یہ اٹھا کہحضورصلی الله علیہ وسلم کو کہاں دفن کیا جائے؟تو اس بارے میں سب ناواقف تھے ۔صدیق اکبر نے فرمایا۔میں نے آپ صلی الله علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے کہ جو نبی جس مقام پر انتقال کرتا ہے ۔اسے وہیں دفن کیاجاتا ہے ۔پھر فتنہ میراث اور ورثہ کا کھڑا ہوا، جس کے تصفیہ کے بارے میں سب دم بخود تھے۔چناں چہ صدیق اکبر نے فرمایا میں نے رسول صلی الله علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ہم گروہ انبیا کا کوئی وارث نہیں ۔اور ہماری میراث صدقہ ہے۔اسی طرح مسیلمہ کذاب کے فتنہ کا بھی سدباب کردیا۔اسی طرح صدیق اکبر نے اپنے زمانے میں قرآن کریم کو ایک مصحف پر جمع کردیا۔

ابن شہاب فرماتے ہیں کہ صدیق اکبر کے پاس ہدیہ کا گوشت آیاتھا ،آپ حارث بن کلدہ کے ساتھ تناول فرمارہے تھے کہ حارث نے کہاامیرالموٴمنین!آپ نہ کھائیں ۔مجھے اس میں زہر کی آمیزش معلوم ہورہی ہے۔آپ نے دونوں ہاتھ کھینچ لیے۔ مگر اسی روز سے دونوں صاحب مضمحل رہنے لگے،۷جمادی الثانی13ہجری کو آپ نے غسل فرمایا۔اسی روز سردی سے بخارہوگیا۔اور پھر نہیں سنبھلے۔جب تک جسم میں آخری توانائی تھی۔مسجد میں تشریف لاتے۔اور نماز پڑھتے تھے لیکن جب مرض نے غلبہ پالیا تو حضرت عمرکو بلا کر ارشاد فرمایا”آئندہ آپ نماز پڑھائیں۔“جب روح اقدس نے پرواز کی تو 22جمادی الثانی 13 ہجری تاریخ تھی۔دو شنبہ کا دن تھا اور مغرب اور عشا کا درمیانی وقت تھا۔عمر شریف 63سال تھی۔ایام خلافت 2برس 3مہینے اور ۱۱دن ہے۔پاک زندگی کا خاتمہ اس کلام پر ہوا:﴿رَبِّ توفَّنِیْ مُسْلِماً وَّألحِقْنَیْ بالصّالحین ﴾․
(ترجمہ):”اے اللہ ! مجھے مسلمان اٹھا اور اپنے نیک بندوں میں شامل کر۔“

آپ کی زوجہ محترمہ نے غسل دیا۔عمر فاروق نے نماز جنازہ پڑھائی۔رسول صلی الله علیہ وسلم کے مرقدکے ساتھ قبر شریف اس طرح کھودی کہ آپ کاسر مبارک آپ کے دوش پاک کے سایہ رہے۔ عمر، طلحہ، عثمان، عبدالرحمن بن عوف نے میت کو آغوش لحد میں اُتارا اور ایک برگزیدہ شخصیت جو آپ صلی الله علیہ وسلم کے بعد امت مسلمہ کی سب سے زیادہ مقبول ،بزرگواراور صالح شخصیت تھی،ہمیشہ کے لییچشم جہاں سے اوجھل ہو گئی۔
انا للہ وانا الیہ راجعون
Flag Counter