ہم جینے کا حق مانگیں تو زنجیر کا پیچ وتاب ملے
محترم مسعود عظمت کشمیری
برصغیر پاک و ہند میں مدارس کی جو شان دار تاریخ ہے وہ اس دور میں کہیں اور نہیں ملتی بر صغیر میں 1857ء کی جنگ آزادی میں ناکامی کے بعد مسلمانوں کی حالت انتہائی خراب ہوئی تھی، انگریز جس نے اس جنگ آزادی کا تمام ملبہ مسلمانوں پر ڈالا اور غصہ تمام کا تمام مسلمانوں پر نکالا، حالاں کہ اس جنگ میں ہندو بھی شامل تھے، لیکن اپنی روایتی ضد و عناد،اور دشمنی کی وجہ سے مسلمان خاص طور پر اس کا نشانہ بنے ۔
اس وقت جو تعلیمی نظام تھا اس کو انگریز نے یک قلم مسترد کردیا اورحکم نامہ جاری کیاکہ جو ہماری تعلیم حاصل کرے گا اس کے لیے نوکری کے دروازے کھلیں گے۔ جس کی وجہ سے ہزاروں لوگ بے روزگار ہو گئے ،ایک طرف تو مسلمانوں کی مالی حالت کمزور کردی گئی، دوسری طرف مسلمانوں کے ایمان پر ڈاکہ ڈالنے اور ان کو اپنے دین سے برگشتہ کرنے کے لیے ہزاروں عیسائی مشنریاں حرکت میں آگئیں اور سرعام عیسائی مذہب کی تبلیغ کرنے لگیں ،کھلے بندوں اسلام اور شعائر اسلام کا مذاق اڑایاجانے لگا، مناظرے ہونے لگے، سادہ لوح عوام کو گم راہ کرنے کے لیے مختلف ہتھکنڈے استعمال کیے جانے لگے ،سب سے زیادہ جس چیز پرزور دیا گیا وہ نئی نسل کی تربیت اور اس کی تعلیم ہے، جس کا لارڈ میکالے کے اس قول سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ان کے دل و دماغ میں کیسے کیسے منصوبے بن رہے تھے ،لارڈمیکالے نے کہا”ہم ایک ایسی نسل تیار کریں گے جو رنگ و نسل میں تو ہندوستانی ہوں گے، لیکن دل و دماغ کے لحاظ سے وہ انگلستانی ہو ں گے“۔ اس وقت جب کہ عام مسلمان مایوس ہو چکے تھے روزگار کے دروازے ان پر بند ہو چکے تھے ،دین پر ڈاکے ڈالے جارہے تھے، تعلیمی نظام کو معطل کردیا گیا ․ہزاروں عیسائی مشنریاں اپنے مذہب کی تعلیم کے لیے حرکت میں آگئیں اس وقت بھی کچھ اللہ کے نیک بندوں سے مسلمانوں کی یہ حالت دیکھی نہیں گئی، چناں چہ انہوں نے فیصلہ کیا کہ مسلمانوں کا مایوسی سے کیا تعلق ؟ہمارا دین و مذہب ہمیں مایوس نہیں ہونے دیتا، یہ ایک زندہ جاوید دین ہے،ہمیشہ حق کا بول بالا ہی ہوا ہے ، مٹنے والا تو باطل ہے ،حق نہ کبھی دبا ہے اور نہ کبھی دبے گا ،چناں چہ نئے ولولے اور جوش کے ساتھ ان اللہ کے نیک بندوں نے اپنے ارادوں کی تکمیل ایک ادارے کے وجود کی صورت میں کی، جہاں مسلمانوں کے ایما ن کی حفاظت ہو سکے، چناں چہ حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی اور ان کے رفقائے کار نے اس عظیم ادارے کی بنیاد رکھی، جس کی شاخیں آج پوری دنیا میں قائم ہیں، ہزاروں لوگ یہاں سے تعلیم حاصل کر کے نکلے تو انہوں نے معاشرے کا رنگ ہی تبدیل کردیا ۔
جہاں پر پہلے فسق وفجور ،چور ی ،ڈاکہ ،حرام خوری اور دنیا کی ہر برائی تھی اس معاشرے کوایسا صاف ستھرا بنادیا کہ لوگ اس علاقے پر دستک کرنے لگے ،سیاست کے میدان میں یہ فضلاء آئے تو سیاست کی ریت ہی بدل گئی، ان لوگوں نے اس وقت مسلمانوں کو سہارا دیا جب ان کا کوئی سہارا نہ رہا ،اس وقت انھیں سنبھالا جب انھیں کوئی سنبھالنے والا نہ تھا،آج یہ جو دینی مدارس برصغیر پاک و ہند میں نظر آتے ہیں یہ اسی کے فیض یافتہ لوگوں کی محنت ہے ،ان مدارس نے معاشرے کو کیا دیا ہے یہ ایک الگ موضوع ہے، جس پر کئی کتابیں لکھی جاسکتی ہیں، مسجد کے امام سے لے کر سیاست کے میدان تک ان کو علمائے دین فراہم کیے ،اردو، جو ہماری قومی زبان ہے، اس کی حفاظت ،اس کی ترویج و اشاعت انھی مدارس ہی سے ہوتی ہے، برخلاف دوسرے لوگوں کے وہ تو انگریزی کے پیوند لگا لگا کر اس کے حُسن وخوبی کو ختم کرنا چاہتے ہیں ، بھارت کے اند راگریہ دینی مدارس نہ ہوتے تو وہاں کوئی کلمہ جاننے والا بھی نہ رہتا ،ان کے مردے قبروں کے بجائے شمشان گھاٹ کی طرف جارہے ہوتے لیکن ان ہی علمائے کرام نے عوام کے دین و مذہب کو بچائے رکھا۔
یہ علمائے کرام ہی تھے جنہوں نے مملکت پاکستان کے لیے قربانیاں دیں اور جب ملک بن گیا اس کے بنانے اور سنوارنے میں لگ گئے، آج جب کہ ملک کا گوشہ گوشہ زخمی ہے، ہر طرف آہ فغاں اٹھ رہی ہے ،چاروں طرف نالے بلند ہورہے ہیں ،ظلم و ستم کی اس چکی میں جہاں اور لوگ پسے جارہے ہیں، وہاں علمائے کرام اور طلبائے کرام کوبھی درندگی اور وحشت کا نشانہ بنایا جارہاہے جنہوں نے اپنی زندگیاں دین اسلام کے لیے وقف کی ہوئی ہیں ،اب اس ملک میں، جو اسلام کے نام پر بناتھا، اسی دین کے نام لیواؤں کو سرعام یو ں قتل کردیا جاتا ہے جیسے کسی چیونٹی کو پاؤں تلے کچل دیا جائے، آخر یہ ظلم وستم کب تک جاری رہے گا ؟کبھی ان دینی اداروں پر چھاپے مارے جارہے ہیں اور کبھی اساتذہ اور طلباء کو ہر اساں کیاجارہا ہے، وہ طلبہ جو یہاں پر صرف دین کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے آئے ہیں، اپنا گھر بار، اپنے عزیز و اقارب کو صرف اس لیے چھوڑا، تاکہ دین کی تعلیم حاصل کرکے اپنے علاقے میں ،اپنے لوگوں میں اسلام کا حقیقی مفہوم پیش کرسکیں ،اسلام کی حقیقی صورت ان کے سامنے رکھ سکیں،لیکن اس دھرتی اور اس ملک کو پتا نہیں کس کی نظر لگ گئی کہ اپنے بنانے والوں پر بھی تنگ ہوگئی ۔کراچی شہر، جو غریبوں کے لیے جائے امن تھا ،اب ان کے لیے ایک خوف ناک شہربن چکایہ شہر جو دینی تعلیم کے حوالے سے مشہور تھا ،ملک کے گوشے گوشے سے طلبہ کرا م اس میں تعلیم حاصل کرنے آتے تھے ،بلوچستان کے آخری کونے سے لے کر پنجاب کے آخری کونے تک،دوسری طرف سرحد اور کشمیر سے یہاں طلبہ تعلیم حاصل کرنے آتے تھے، انھی لوگوں کو قتل کیا جارہاہے ،ان کے قاتل سرعا م دندناتے پھر رہے ہیں لیکن حکومتی اداروں کے سروں پر جوں تک نہیں رینگتی ۔
اگر یوں ہی سلسلہ چلتارہا ، طلبہ و علماء کویوں ہی شہید کیاجاتا رہا ، عوام کی املاک کو یوں ہی نقصان پہنچتا رہا ،تو یہ شہر ایک دن ویرانی کا منظر پیش کرے گا (اللہ کرے ایسا نہ ہو)۔لیکن حالات جس رخ پر جارہے ہیں،اللہ کی لاٹھی بے آواز ہے ۔اس کے ہاں دیر ہے، اندھیر نہیں، وہ جب پکڑتا ہے تو سخت پکڑتا ہے، اس وقت سے ڈرنا چاہیے جب اللہ نے اپنی ڈھیل دی ہوئی رسی کو کھینچ لیا ،اس نے جب اپنی پکڑ سخت کی تواس وقت نہ بڑ ا بچے گا نہ چھوٹا، نہ عُہدے رہیں گے نہ وزارتیں ،نہ بلند دعوے رہیں گے نہ مستقبل کی امیدیں، سب خاک میں مل جائے گا، پھر تاریخ میں اس کے سوا کچھ نہ لکھاجائے گاکہ ایک ظالم و جابر قوم کا انجام یوں ہوا ۔وہ وقت آنے سے پہلے ہی سنبھل جانا چاہیے ، ورنہ انجام عبرت ناک ہے، پہلی قوموں کی مثال ہمارے سامنے موجود ہے۔