Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق ربیع الثانی 1434ھ

ہ رسالہ

14 - 18
والدین کی نافرمانی کا فتنہ
مولانا سید احمد ومیض ندوی

12مئی کا دن عالمی یوم ماں (مدرڈے) کے طور پر منایا جاتا ہے، انسانی رشتوں میں سب سے عظیم رشتہ ماں باپ کا ہے، دنیا کے سارے مذاہب ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کی تلقین کرتے ہیں، شریعتِ اسلامی میں بھی ماں باپ کے حقوق پر کافی زور دیا گیا ہے، قرآن مجید میں ایک سے زائد مقامات پر خدا کی عبادت کے بعد والدین سے حسن سلوک کی تاکید کی گئی ہے، ارشادِ خداوندی ہے: ﴿وَقَضٰی رَبُّکَ اَلَّاتَعْبُدُوْا اِلَّا اِیَّاہُ وَبِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَاناً﴾․(بنی اسرائیل:23)
”اور تمہارے رب کا قطعی حکم ہے کہ صرف اسی کی عبادت اور پرستش کرو اور ماں باپ کے ساتھ اچھے سے اچھا برتاوٴ کرو“۔

اللہ تعالیٰ نے پچھلی قوموں سے بھی اس بات کا عہد لیا تھا کہ وہ والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کریں، ارشادِ خدا وندی ہے:﴿ وَاِذْاَخَذْنَا مِیْثَاقَ بَنِی اِسْرَائِیْلَ لَا تَعْبُدُوْنَ اِلَّااللّٰہَ وَبِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَاناً﴾․ (البقرة:83)
”اور جب ہم نے بنی اسرائیل سے اس بات کا عہد لیا تھا کہ تم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور والدین سے حسنِ سلوک کرو“۔

سورہٴ لقمان میں ماں باپ کا حق بیان کرتے ہوئے یہاں تک فرمایا گیا کہ اگر بالفرض کسی کے ماں باپ کافر ومشرک ہوں اور اولاد کو بھی کفر وشرک کے لیے مجبور کریں تو اولاد کو چاہیے کہ ان کے کہنے سے کفر وشرک تو نہ کرے، لیکن دنیا میں ان کے ساتھ اچھا سلوک اور ان کی خدمت کرتی رہے، چناں چہ ارشاد ہے: ﴿وَاِنْ جَاھَدَاکَ عَلٰی اَنْ تُشْرِکَ بِیْ مَالَیْسَ لَکَ بِہ عِلْمٌ فَلَا تَطِعْھُمَا وَصَاحِبْھُمَا فِیْ الدُّنْیَا مَعْرُوْفاً﴾․(لقمان:15)

رسول کریم صلی الله علیہ وسلم نے بھی ماں باپ کے ساتھ حسنِ سلوک پر کافی زور دیا ہے، ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک پر جنت کی ضمانت اور ان کے ساتھ بدسلوکی پر جہنم کی وعیدیں سنائی ہیں، چناں چہ ایک شخص نے جب آپ صلی الله علیہ وسلمسے پوچھا کہ اولاد پر ماں باپ کا حق کتنا ہے؟ تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ تمہاری جنت اور دوزخ ہیں“ (مشکوٰة:421) مطلب یہ ہے کہ اگر تم ماں باپ کی اطاعت اور خدمت کے ذریعہ ان کو راضی رکھو تو جنت پاوٴ گے، اس کے برعکس اگر ان کی نافرمانی اور ایذارسانی کر کے انہیں ناراض کرو گے تو پھر تمہارا ٹھکانہ دوزخ میں ہوگا، ایک روایت میں آپ صلی الله علیہ وسلم نے خداکی رضامندی اور خوش نودی کو والدین کی رضامندی اور خوش نودی سے وابستہ فرمایا، چناں چہ فرمایا: ”رِضَی الرّبِ فِی رِضَا الْوَالِدِ وَسَخْطُ الرَّبِّ فِیْ سَخْطِ الْوَالِدِ“․ (ترمذی، مشکوٰة:419)

”اللہ کی رضامندی والدکی رضامندی میں ہے اور اللہ کی ناراضی والد کی ناراضی میں ہے۔“ بعض روایات میں مخصوص حالات کے پیش نظر ماں باپ کی خدمت کو جہاد سے بھی مقدم قرار دیا گیا، چناں چہ ایک شخص آپ صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ میں جہاد میں جانا چاہتا ہوں، آپ صلی الله علیہ وسلمنے پوچھا کیا تمہارے ماں باپ ہیں؟ اس نے کہا ہیں، آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: تو پھر ان کی خدمت اور راحت رسانی میں جدوجہد کرو، یہی تمہارا جہاد ہے ۔(ابوداؤد)

اسی طرح کی ایک اور روایت ہے کہ حضرت جاہمہ رضی الله عنہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ میرا ارادہ جہاد میں جانے کا ہے اور میں آپ سے اس بارے میں مشورہ لینے کے لیے حاضر ہوا ہوں، آپ صلی الله علیہ وسلم نے ان سے پوچھا: کیا تمہاری ماں ہیں؟ انہوں نے عرض کیا: ہاں، ہیں، آپ صلی الله علیہ وسلمنے فرمایا: تو پھر انہی کے پاس جاوٴ اور انہی کی خدمت میں رہو، ان کے قدموں میں تمہاری جنت ہے۔ (مشکوٰة:421،مسندِاحمد، نسائی)

والدین کی خدمت سے آدمی کس طرح جنت کا حق دار ہوتا ہے، اس کا ایک نمونہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کو خواب میں دکھایا گیا، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، رسول اللہ صلی الله علیہ وسلمنے فرمایا: میں سویا تو میں نے خواب میں دیکھا کہ میں جنت میں ہوں، وہیں میں نے کسی کے قرآن پڑھنے کی آواز سنی تو میں نے دریافت کیا کہ یہ اللہ کا بندہ کون ہے جو یہاں جنت میں قرآن پڑھ رہا ہے؟ تو مجھے بتایاگیا کہ یہ حارثہ بن نعمان ہیں، ماں باپ کی خدمت واطاعت شعاری ایسی ہی چیز ہے، پھر آپ صلی الله علیہ وسلمنے فرمایا کہ حارثہ بن نعمان اپنی ماں کے بہت ہی خدمت گذار اور اطاعت شعار تھے ۔ (شعب الایمان)

والدین کی اطاعت وخدمت سے نہ صرف یہ کہ آخرت میں سرفراز کیا جائے گا، بلکہ خدمتِ والدین کے دنیوی اثرات بھی ہیں، ماں باپ کی خدمت کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ دنیا میں بھی خاص برکتوں سے نوازتا ہے، چناں چہ حضرت جابر رضی الله عنہ سے روایت ہے رسول اللہصلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ ماں باپ کی اطاعت وخدمت اور حسن سلوک کی وجہ سے آدمی کی عمر بڑھا دیتا ہے۔ (کامل ابن عدی) نیز رسول کریمصلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: اپنے ماں باپ کی خدمت وفرماں برداری کرو، تمہاری اولاد تمہاری فرماں بردار اور خدمت گذار ہوگی۔(معجم اوسط للطبرانی) حتی کے ماں باپ کی خدمت کو بہت سے گناہوں کی معافی کا ذریعہ قرار دیا گیا، چناں چہ ایک شخص رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ حضرت! میں نے ایک بہت بڑا گناہ کیا ہے تو کیا میری توبہ قبول ہوسکتی ہے؟ آپ صلی الله علیہ وسلمنے پوچھا: ”تمہاری ماں زندہ ہیں؟ اس نے عرض کیا کہ ماں تو نہیں ہے، آپ صلی الله علیہ وسلمنے فرمایا: تو کیا تمہاری کوئی خالہ ہے؟ اس نے عرض کیا: ہاں خالہ موجود ہے، آپ انے فرمایا: تو اس کی خدمت اور اس کے ساتھ اچھا سلوک کرو، اللہ تعالیٰ اس کی برکت سے تمہاری توبہ قبول فرمالے گا۔ (ترمذی،مشکوٰة:420)

اسلام میں ماں باپ کی خدمت اور ان کے ساتھ حسنِ سلوک پر اس قدر زور دیا گیا ہے کہ والدین کے انتقال کے بعد بھی بہت سی باتوں کی تاکید کی گئی، شریعتِ اسلامی کی رو سے اولاد پر ماں باپ کے حقوق کا سلسلہ ان کی زندگی کے ساتھ ختم نہیں ہوتا، بلکہ ان کے مرنے کے بعد بھی ان کے کچھ اور حقوق عائد ہوتے ہیں، حق کا ادا کرتے رہنا سعادت مند اولاد کی ذمہ داری اور اللہ تعالیٰ کی خاص رضا اور رحمت کا وسیلہ ہے، روایات میں اس طرح کے بعض حقوق کا تذکرہ کیا گیا ہے، چناں چہ ابواسید ساعدی رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ ایک وقت جب ہم لوگ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھے، بنی سلمہ میں کے ایک شخص آئے اور انہوں نے دریافت کیا: یارسول اللہ! کیا میرے ماں باپ کے مجھ پر کچھ ایسے حقوق بھی ہیں جو ان کے مرنے کے بعد مجھے ادا کرنے چاہئیں؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں! ان کے لیے خیرورحمت کی دعا کرتے رہنا، ان کے واسطے اللہ تعالیٰ سے مغفرت اور بخشش کی دعا مانگنا، ان کا اگر کوئی عہد معاہدہ کسی سے ہو تو اس کو پورا کرنا، ان کے تعلق سے جو رشتے ہوئے ان کا لحاظ رکھنا اور ان کا حق ادا کرنا اور ان کے دوستوں کا اکرام واحترام کرنا۔ (ابوداوٴد2/700، ابن ماجہ) اس روایت میں والدین کے انتقال کے بعد ان کے تین حقوق کا تذکرہ کیا گیا ہے ان کے لیے رحمت ومغفرت کی دعا۔ کسی سے ان کا معاہدہ ہوا ہو اور اس کی تکمیل کیے بغیر انتقال کر گئے ہوں تو اس کی تکمیل۔ان کے رشتہ دار اور دوست واحباب کے ساتھ حسن سلوک اور اکرام کا معاملہ۔

عمر کے ہر مرحلہ میں ماں باپ کی خدمت کرنی چاہیے، لیکن جب وہ بڑھاپے کی عمر کو پہنچیں تو اُن کی اطاعت وخدمت میں کوئی کسر باقی نہ رکھنا چاہیے، اس لیے کہ بڑھاپے میں وہ اولاد کی خدمت کے محتاج ہوتے ہیں، قرآن مجید میں اس کی خاص تاکید کی گئی ہے، چناں چہ ارشاد ہے: ﴿اِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَکَ الْکِبْرَ اَحَدُھُمَا اَوْکِلَاَھُمَا فَلَا تَقُلْ لَّھُمَا اُفٍ وَّلَاتَنْھَرْھُمَا وَقُلْ لَّھُمَا قَوْلاً کَرِیْماً وَاخْفِضْ لَھُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُلْ رَبِّ ارْحَمْھُمَا کَمَا رَبَّیَانِیْ صَغِیْرًا﴾․(بنی اسرائیل:24)
ترجمہ:”اگر ان دونوں میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کی عمر کو پہنچ جائیں تو انہیں اف تک نہ کہنا اور نہ انہیں جھڑکنا، ان سے نرمی سے بات کرنا، ان کے لیے عاجزی کے بازو بچھانا اور یوں کہنا میرے رب! اِن پر آپ رحم فرمائیے جیسے انہوں نے بچپن میں میری پرورش کی۔“

آدمی کے لیے خوش نصیبی کی بات ہے کہ اسے ماں باپ کا بڑھاپا ملے، اس لیے کہ یہ ماں باپ کی خدمت کر کے اللہ کی رضا اور مغفرت حاصل کرنے کا زرّیں موقع ہوتا ہے، ماں باپ کا بڑھاپا پاکر بھی اگر کوئی اپنی مغفرت کا سامان نہ کرے، تو اس سے بڑھ کر بدنصیبی اور کیا ہوسکتی ہے؟! ایسے ہی بدنصیب کے سلسلہ میں حضور صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:ہلاک ہو برباد ہو وہ شخص، جو اپنے ماں باپ یا ان میں سے کسی ایک کو بڑھاپے کی حالت میں پائے، پھر وہ ان کادل خوش کر کے جنت حاصل نہ کرسکے۔ (مسلم)

والدین میں ماں کا درجہ باپ کے مقابلہ میں زیادہ اس لیے ہے کہ ماں کو اولاد کی پرورش اور ولادت کے دیگر مراحل میں بڑی تکلیفوں سے گذرنا پڑتا ہے، قرآن مجید میں ماں کے ان دشوار گزار مرحلوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا گیا: ﴿وَوَصَّیْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْہِ اِحْسَاناً حَمَلَتْہُ اُمُّہ کُرْھًا وَّوَضَعَتْہُ کُرْھَا﴾․ (الاحقاف :15)
ترجمہ:”اور ہم نے انسان کو وصیت کی کہ وہ اپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک کرے، اس کی ماں نے اسے تکلیف سے پیٹ میں رکھا اور تکلیف سے جنم دیا“۔

ماں کی تکلیفوں کا ذکر قرآن میں ایک سے زائد مقامات پر کیا گیا ہے، رسولِ کریم صلی الله علیہ وسلم نے بھی ماں کے حق کی زیادتی کی طرف اشارہ فرمایا، چناں چہ ایک شخص نے حضورصلی الله علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ مجھ پر خدمت اور حسنِ سلوک کا سب سے زیادہ حق کس کا ہے؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: تمہاری ماں کا، تمہاری ماں کا، تمہاری ماں کا، اس کے بعد تمہارے باپ کا، پھر اس کے بعد جو تمہارے قریبی رشتہ دار ہوں۔(بخاری ومسلم، مشکوٰة:420) ایک طرف والدین کے ساتھ حسنِ سلوک اور ان کی اطاعت وفرماں برداری کی اس قدر تاکید ہے، دوسری طرف ہمارے معاشرہ کی وہ صورتِ حال ہے جسے دیکھ کر سرشرم سے جھک جاتا ہے، اسلامی تعلیمات سے دوری کا اثر یہ ہے کہ ماں باپ کی خدمت تو دور رہی، بہت سے بدنصیب نوجوان اپنے والدین پردست درازی میں بھی تامل نہیں کرتے، اب تو اخبارات میں اولاد کے ہاتھوں ماں باپ کے قتل کی خبر بھی آنے لگی ہے، والدین کی حکم عدولی، ان کی مرضی کے خلاف کام، گفتگو کے دوران تندلہجہ اختیار کرنا اب اتنا عام ہوگیا ہے کہ کسی کو حیرت بھی نہیں ہوتی۔نبی صلی الله علیہ وسلم نے پیشین گوئی فرمائی تھی کہ قیامت کے قریب ماں باپ کی نافرمانی ہوگی۔ دور ِ حاضر کا یہ بھی ایک خطرناک سماجی فتنہ ہے ۔اس صورتِ حال کے ذمہ دار ایک حد تک خود والدین ہوتے ہیں جنھیں اپنی اولاد کی دینی تربیت کی فکر نہیں ہوتی، ماں باپ اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمت ہیں، ایسی نعمت کہ جس کا کوئی بدل نہیں، دنیا کی بہت سے نعمتیں اگر فوت ہو جائیں، تو دوبارہ حاصل کی جاسکتی ہیں، لیکن ماں باپ کی نعمت دوبارہ حاصل نہیں ہوسکتی، اس نعمت کے ذریعہ آدمی اپنی دنیا بھی سنوار سکتا ہے اور آخرت بھی ، اس نعمت کی ناقدری کرنے والا نہ صرف یہ کہ آخرت میں پشیمانی اٹھائے گا، بلکہ اس کی دنیا بھی بے رونق ہو جائے گی۔ 
Flag Counter