Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق ربیع الثانی 1434ھ

ہ رسالہ

2 - 18
اسلامی نظام تربیت اور اس کے دور رس اثرات
مولانا سید محمد واضح رشید ندوی

انسان کے متعلق مغرب کا تصور
مغربی ماہرین تعلیم کی نظر میں انسان صرف جسم اور عقل کے مجموعہ کا نام ہے، اس وجہ سے مغربی نظام تعلیم میں انسان کی خواہشات پر زور دیا جاتا ہے اور انسان کو ایسے طریقے اور وسائل کی تعلیم دی جاتی ہے جن سے وہ اپنے دنیاوی مقاصد اور جنسی خواہشات کی تکمیل آزادی کے ساتھ انجام دے سکے، ،انسان کے تیئں اس تصور پر مغرب کے تمام اصحاب فکر متفق ہیں ،خواہ وہ نظریہ ارتقا کے قائل ہوں،یا آزادیٴ فرد کے قائل ہوں ،یا وہ اجتماعی مصلحت کے داعی ہوں،ان سب کے نزدیک انسان اپنی خواہشات کی تکمیل میں حیوان کی طرح بالکل آزاد ہے،اس اعتبار سے دونوں میں عقل و شعور کے سوا کوئی فرق نہیں ہے۔

اس مغربی نظریہ تعلیم کی بنیاد پر ماہرین تعلیم و تربیت کی تمام تر توجہات حصول معاش اور معیار زندگی کو بلند اور مستحکم کرنے کے لیے مواقع اور وسائل کی فراہمی پر مرکوز ہوگئیں ،تاکہ انسان عیش و آرام کے وسائل سے بھر پور فائدہ اٹھاسکے، نفسانی خواہشات کی تکمیل کر سکے ،عیاشی اور لذت کو شی کی زندگی گزار سکے، عزت وجاہ اور غلبہ و اقتدار تک پہنچ جائے اور عقل کا کا م یہ طے کیا گیا کہ وہ صرف جسم کے مطالبات کو پورا کرنے اور وسائل کی فراہمی میں مدد کرے ۔

مغربی نظام تعلیم و تربیت
لہٰذا نظام تعلیم و تربیت بنانے والوں کے پیش نظر صرف یہ رہا کہ انسان کے جسمانی تقاضوں اورنفسانی خواہشات کی تکمیل کیسے ہوگی ؟اور اس کے کیا کیا طریقے ہو سکتے ہیں؟اس سلسلہ میں ان کی مثال اس تاجر کی ہے جو صرف گاہک کی خواہشات اور ڈیمانڈ پر توجہ کرتا ہے،اس کو اس بات سے کوئی سروکار نہیں ہوتا کہ اس کی خواہشات کیسی ہیں، اس غلط نظریہ تعلیم کا، جس میں انفرادی یا اجتماعی استحصال کا مزاج غالب ہے،موجودہ زندگی پر بہت برا اثر پڑا اور تعلیم حیوانی فطرت اور جنسی خواہشات کو فروغ دینے کا ذریعہ بن گئی ،اس لیے کہ مادی نظام حیات ،جو اس وقت پوری دنیا پر حاوی ہے ،انسان کے لیے اپنے مقرر کردہ تقاضوں: غذاء کپڑا اور جنسی آسودگی ہی کے اردگرد گھومتا ہے،رہے دوسرے امور تو وہ یا تو ثانو ی درجہ کے ہیں یا اس وقت تک قابل قبول سمجھے جاتے ہیں جب تک کہ مادیت کے مقرر کردہ مذکورہ بالا تقاضوں سے متصادم نہ ہوں۔

انسان کے متعلق اسلام کا تصور
انسان کے متعلق اسلام کا نظریہ مغربی اور مادی نظریہ سے بالکل جدا ہے، مغربی علوم اور مادی نقطہٴ نظر سے انسان حیوانی فطرت کا ترقی پذیر امتداد ہے، جو عقل و شعور سے ممتاز ہے ،جب کہ اسلام کی نظر میں انسان اشرف المخلوقات اور روئے زمین پر اللہ کا خلیفہ ہے،مسجود ملائکہ ہے،اسلام مسیحیت کی طرح انسان کے جائز فطری تقاضو ں اور خواہشات پر نہ پابندی لگاتا ہے اور نہ ہی انسان کو بالکل آزاد چھوڑتا ہے، جیسا کہ مادہ پرست یورپ کا نظریہ ہے کہ انسان بالکل آزاد ہے،وہ کسی قانون اور اخلاق کا پابند نہیں ہے۔

اس اعتبار سے اسلام انسان کی ایسی تربیت کرتا ہے، جس میں اس کے جسمانی ،عقلی اور روحانی تقاضوں کابیک وقت حسین تناسب کے ساتھ خیال رکھا جاتا ہے،اس کے عقل شعور اور اخلاق کی ایسی تشکیل اور تربیت کی جاتی ہے کہ جس سے وہ روئے زمین پر اللہ کی نیابت کا کردار بحسن و خوبی ادا کر سکے:﴿وَلَقَدْ کَرَّمْنَا بَنِیْ آدَمَ وَحَمَلْنَاہُمْ فِیْ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنَاہُم مِّنَ الطَّیِّبَاتِ وَفَضَّلْنَاہُمْ عَلَی کَثِیْرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِیْلاً﴾․(سورہ اسراء:70)(اور ہم نے آدم کی اولاد کو عزت دی اور ہم نے ان کو خشکی اور دریا میں سوار کیا اور نفیس نفیس چیزیں ان کو عطا فرمائیں اور ہم نے ان کو اپنی بہت سی مخلوق پر فوقیت دی)۔

اسلام انسان کو حیات بخش سرگرمیوں کی اجازت دیتا ہے،اسے غوروفکر ، تدبراور وسائل زینت اختیار کرنے کی ترغیب دیتا ہے،حقِ آزادی سے بھر پور صحیح فائدہ اٹھانے پر ابھارتا ہے اور انسان کو اس بات کی تلقین کرتا ہے کہ وہ اپنی جسمانی و عقلی صلاحیتوں اور روحانی طاقتوں کو انسان کی خدمت، اس کی عزت و شرافت کی حفاظت جیسے اعلی اور بلند مقاصد میں استعمال کرے، نہ کہ محدود بشری تقاضوں میں، جن میں انسان اور جانور دونوں برابر ہیں،لہٰذا کھانا پینا،پہننا اوڑھنااور نفسانی خواہشات کی تکمیل یہ تو انسانی فطرت کا ایک حصہ ہے،کل مقصد حیات نہیں۔

مادی ذہنیت اور اسلامی ذہنیت کا فرق
مادی ذہنیت اور اسلامی تربیت سے تشکیل پانے والی ذہنیت کا موازنہ ہم حضرت ربعی بن عامر کے اس جملہ سے کرسکتے ہیں،جو انہوں نے رستم کے سامنے کہا تھا کہ ”اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس لیے برپا کیا ہے کہ ہم بندوں کو بتوں کی پرستش سے نکال کر خدائے واحد کی عبادت کی طرف لائیں، بندوں کو دنیا کی تنگی سے نکال کر دنیا کی وسعت کی طرف لائیں۔“

ربعی بن عامر نے اس زمانہ میں جب کہ معاشرہ اپنی بلندی کو پہنچ چکا تھا، غذا، کپڑے اور نفس کی آسودگی کو دنیا کی تنگی اور ایک قسم کی غلامی شمار کیا۔

اسلام کا متوازن نظام ترتیب
اسلام آزادی کا مذہب ہے ، اس میں عقیدہ کی بھی آزادی ہے اور زندگی کی بھی ، اس طور سے کہ زندگی کی آزادی انسان کی عام عزت وشرافت سے متصادم نہیں ہوتی جس سے الله تعالیٰ نے اسے نوازا ہے اور یہ اسی وقت ہو سکتا ہے جب کہ انسان کی صحیح تربیت کی جائے فکر انسانی کی صحیح خطوط پر تشکیل کی جائے اورانسان کے اندر اپنے مقام ومرتبہ اور شرافت وکرامت کا شعور اور اپنے خالق ومالک رب العالمین کے سامنے جواب دہ ہونے کااحساس جاگزیں کیا جائے۔

اس مقصد کو پیش نظر رکھتے ہوئے اسلامی نظام تربیت میں اول دن سے عقیدہ کی درستگی پر بنیادی اور ترجیحی طور پر زور دیا جاتا ہے اس تربیت کا آغاز بچے کی ولادت کے وقت ہی سے ہو جاتا ہے کہ دنیا میں آتے ہی سب سے پہلے اس کے کانوں میں کلمہ توحید کی آواز پہنچتی ہے کہ الله ایک ہے ، اس کے سوا کوئی او رمعبود نہیں اور وہی خالق وپالنہار ہے ، اس کے بعد ماں کی گود میں بچہ کی تربیت ہوتی ہے اور اسلام پوری راہ نمائی کرتا ہے ، اس کے بعد گھر کے باہر کا ماحول شروع ہوتا ہے او راسلام اس مرحلہ میں بھی پوری راہ نمائی کرتا ہے او رکچھ پابندیاں اور بندشیں لگائی جاتی ہیں اس طور پر کہ اس کی فطری سرگرمیوں اور طبعی میلانات کو مقید نہیں کیا جاتااور اسلام اس مرحلہ میں بچہ کو ہر قسم کے شیطانی وسوسہ اور شر سے بچاتا ہے اور اس کے میلانات اور فطری تقاضوں میں تناسب اور توازن پیدا کرتا ہے ، تاکہ فطری میلانات اس کی روحانی صلاحیتوں پر حاوی نہ ہوں: ﴿وَنَفْسٍ وَمَا سَوَّاہَا، فَأَلْہَمَہَا فُجُورَہَا وَتَقْوَاہَا، قَدْ أَفْلَحَ مَن زَکَّاہَا، وَقَدْ خَابَ مَن دَسَّاہَا﴾․ (اور قسم ہے انسان کی جان کی او راس کی جس نے اس کو درست بنایا، پھر اس کی بد کرداری او رپرہیز گاری دونوں باتوں کو اس کو القاء کیا ، یقینا وہ مراد کو پہنچا جس نے اس جان کو پاک کر لیا اور وہ نامراد ہوا جس نے اس کو فجور میں دبا دیا)۔

اور فرمایا: ( تو آپ نصیحت کیا کیجیے اگر نصیحت کرنا مفید ہوتا ہو ، وہی شخص نصیحت مانتا ہے جو خدا سے ڈرتا ہے اور جو شخص بد نصیب ہو وہ اس سے گریز کرتا ہے جو آخر کار بڑی آگ یعنی آتش دوزخ میں داخل ہو گا)۔ (سورہ اعلیٰ:12-9)

ارشاد ربانی ہے:﴿لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ فِیْ أَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ، ثُمَّ رَدَدْنَاہُ أَسْفَلَ سَافِلِیْنَ، إِلَّا الَّذِیْنَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ فَلَہُمْ أَجْرٌ غَیْْرُ مَمْنُونٍ﴾․ (سورہ التین:6-4)( ہم نے انسان کو بہت خوب صورت سانچے میں ڈھالا ہے ، پھر ہم اسے پستیوں سے بھی زیادہ پست کر دیتے ہیں البتہ جو لوگ ایمان لائے او رنیک عمل بھی کیے تو ان کے لیے اجر غیر منقطع ہے)۔

اور فرمایا:( قسم ہے زمانہ کی کہ انسان بڑے خسارہ میں ہے ، مگر جو لوگ ایمان لائے او رانہوں نے اچھے کام کیے او رایک دوسرے کو فہمائش کرتے رہے حق کی او رایک دوسرے کو اعمال کی پابندی کی فہمائش کرتے رہے)۔ (سورہ عصر)

شعور کی تربیت
اسلام میں تعلیم کا آغاز انسان کے شعور کی تربیت سے ہوتا ہے ، اسے بتایا جاتا ہے کہ اس کا خالق حقیقی کون ہے او رپنے خالق ورب کے سامنے جواب دہ ہونے کا احساس دلایا جاتا ہے اور اسے ان خطرات اور چیلنجز سے آگاہ کیا جاتا ہے جو بشری تقاضوں او رنفسانی خواہشات او راس میں عدم توازن کے نتیجہ میں پیدا ہوتے ہیں: ﴿اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَق،خَلَقَ الْإِنسَانَ مِنْ عَلَقٍ، اقْرَأْ وَرَبُّکَ الْأَکْرَمُ، الَّذِیْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ، عَلَّمَ الْإِنسَانَ مَا لَمْ یَعْلَمْ، کَلَّا إِنَّ الْإِنسَانَ لَیَطْغَی، أَن رَّآہُ اسْتَغْنَی، إِنَّ إِلَی رَبِّکَ الرُّجْعَی﴾․ (سورہ علق:8-1)( آپ پڑھیے اپنے پروردگار کے نام کے ساتھ جس نے سب کو پیدا کیا جس نے انسان کو خون کے لوتھڑے سے پیدا کیا ہے آپ ( قرآن) پڑھا کیجیے اور آپ کا پروردگار بڑا کریم ہے جس نے قلم کے ذریعہ سے تعلیم دی ہے جس نے انسانوں کو ان چیزوں کی تعلیم دی جنہیں وہ نہیں جانتے تھے،ہاں ہاں بے شک انسان حد سے نکل جاتا ہے اس بنا پر کہ اپنے کو مستغنی سمجھتا ہے، ( اے مخاطب) تیرے رب ہی کی طرف سب کو لوٹنا ہو گا)۔

عقیدہ کی تربیت
اسلامی نظام تربیت میں عقیدہ تربیت کی بنیاد ہے او راسی پر انسان کی دنیوی اور اخروی کام یابی کا انحصار ہے ، عقیدہ ہی انسان کا اصل محافظ اور نگراں ہے ، عقیدہ بیدار آنکھوں کی طرح ہے ، عقیدہ ہی انبیاء ورسل کی تربیت کی اساس ہے او رانبیاء تعلیم وتربیت میں ہمارے نمونہ اور آئیڈیل ہیں، اسلام نے عقیدہ کوتنہا نہیں چھوڑا ہے، بلکہ اسے عمل صالح او رایک دوسرے کو حق وصبر کی تلقین سے مربوط کیا ہے ، یعنی زندگی میں بلند انسانی قدروں، پاکیزہ زندگی او رانسان کی عزت وشرافت کی حفاظت کے لیے مصائب او رپریشانیوں کو برداشت کرنے کی تلقین کرتا ہے،اس طرح اسلام نے فرد اور جماعت کی شرافت و عظمت کو تحفظ فراہم کیا ہے۔“

مثالی انسان
لہٰذا اسلامی تربیت کی رو سے مثالی انسان وہ نہیں جو صرف کسب معاش اور خواہشات نفس کی تکمیل کی تگ ودو میں لگارہے،بلکہ اسلام کی نظر میں نیک انسان وہ موٴمن صالح ہے جو اپنے خالق کاحق شناس ہو،اپنی زندگی کو اپنے خالق و مالک کی مرضی ومنشا کے مطابق گزار ے،اللہ کے بندوں کے درمیان ایک فرد صالح اور انسانی برادری میں ایک شریف رکن کی حیثیت سے رہے ،پوری انسانیت کی فلاح و بہود کے لیے کوشاں رہے، نہ کہ صرف اپنے مفاد کے لیے﴿وَیُؤْثِرُونَ عَلَی أَنفُسِہِمْ وَلَوْ کَانَ بِہِمْ خَصَاصَةٌ﴾․ (سورہ حشر:9)(دوسروں کو اپنے آپ پر ترجیح دیتے ہیں،اگر چہ وہ خود ہی اس کے ضرورت مند ہوں )۔

درحقیقت اسلام کی نظر میں بہترین مثالی انسان وہ ہے جو دوسروں کی خاطر اپنے نفس کو قربان کردے ،اس طرح مادی تربیت اور اسلامی تربیت میں بڑا نمایاں فرق ہے،مادی تربیت خود غرضی اور مفاد پرستی کو بڑھا وادیتی ہے،جب کہ اسلامی تربیت انسان کو اپنا ئیت قربت ،خلوص ومحبت ،ایثار و قربانی اور ہم دردی وغم گساری کے زیور سے آراستہ کرتی ہے۔

اسلامی تربیت کی جامعیت
اسلامی تربیت ہر چیز کو اس کے مناسب مقام پر رکھتی ہے کہ انسانی سرگرمی کا کوئی پہلو مغلوب نہ ہونے پائے اورجسم،عقل اور روح کے درمیان توازن برقرار رہے،انسان کو دوسرے کے لیے آئیڈیل بناتی ہے،اور کائنات میں اعلی ترین مقام پر فائز ہونے کی ترغیب دلاتی ہے، اس اعتبار سے اسلامی تربیت انسان کے جسمانی ،عقلی، شعوری، ذوقی اور روحانی تمام پہلوٴوں کو محیط ہے اور اسلامی تربیت انسان کو متوجہ کرتی ہے کہ اس کی تمام سرگرمیاں ایک اعلیٰ مقصد پر مرکوز ہوں اور وہ دنیا و آخرت میں اللہ کی خوش نودی اور رضا کے حصول کا ذریعہ ہو۔

اسلام ایسے فرد اور سماج کی تشکیل کرتا ہے جس میں صرف خدائے وحدہ لاشریک کی پرستش ہواور پھر اس کے ذریعے سے اس میں اجتماعی زندگی کی خوبیاں :باہمی تعاون،یکجہتی ،رواداری،ہم دردی ،اخوت وبھائی چارہ اور الفت و محبت کی جلوہ گر ی ہو،لیکن اس کے ساتھ ساتھ انسان کی ذاتی صلاحیتیں اور شخصی خصوصیات مجروح نہ ہوں۔

اسلامی تربیت کی خصوصیات
تربیت اسلامی انسان کو فضائل و محاسن کی تلقین کرتی ہے اور تمام انسانوں کو فلاح انسانی کی دعوت دیتی ہے:
(اے مومنو!کوئی قوم کسی قوم سے تمسخر نہ کرے ،ممکن ہے کہ وہ لوگ ان سے بہتر ہوں،اور نہ عورتیں عورتوں سے تمسخر کریں ،ممکن ہے کہ وہ ان سے اچھی ہوں اور اپنے مومن بھائی کو عیب نہ لگاؤاور نہ ایک دوسرے کا برانام رکھو،ایمان لانے کے بعد برا نام رکھنا گناہ ہے،اور جو توبہ نہ کریں،وہ ظالم ہیں،اے مومنو!بہت گمان کرنے سے احتراز کرو،کہ بعض گمان گناہ ہیں اور ایک دوسرے کے حال کا تجسس نہ کرو اور نہ کوئی کسی کی غیبت کرے،کیا تم میں کوئی اس بات کو پسند کرے گا کہ اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھائے اس سے تو تم ضرور نفرت کرو گے (تو غیبت نہ کرو)اور خدا کا خوف رکھو،بے شک خدا توبہ کرنے والا مہربان ہے،لوگو!ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیااور تمہاری قومیں اور قبیلے بنائے، تاکہ ایک دوسرے کی شناخت کرو اور خدا کے نزدیک تم میں زیادہ عزت والاوہ ہے جو زیادہ پر ہیز گار ہے ،بے شک خدا سب کچھ جاننے والا ہے اور سب سے خبردارہے۔)(سورہ حجرات:11۔13)

اسلامی تربیت متوازن ،جامع اور ہمہ گیر ہے،زندگی کا کوئی پہلو اس سے الگ نہیں ہے۔

اسلامی تربیت انسانی تربیت ہے، جو انسان کے مقام و مرتبہ اور اس کی عزت و شرف کو تحفظ فراہم کرتی ہے،انسان کے اندر آفاقیت پیدا کرتی ہے، کسی ایک قوم و ملت کے ساتھ خاص نہیں ہے۔

اسلامی تربیت بشری تقاضوں اور فطری میلانات و جذبات کی تربیت کرتی ہے اور انہیں قوت بہم پہنچاتی ہے اور اعلیٰ قدروں کی آب یاری کرتی ہے ۔

اسلامی تربیت چیزوں کے درمیان توازن ،تناسب ،عدل اور توافق و مساوات قائم کرنے کا نام ہے۔اوریہ فطرت انسانی کے باہمی فرق کی رعایت اور احترام کرتی ہے:﴿فَمَنِ اعْتَدَی عَلَیْْکُمْ فَاعْتَدُواْ عَلَیْْہِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدَی عَلَیْْکُمْ﴾․(سور بقرہ:194)(تو جو کوئی تم پر زیادتی کرے تم بھی اس پر زیادتی کرو، جیسی اس نے تم پر زیادتی کی ہے)۔﴿وَإِن تَصْبِرُواْ وَتَتَّقُواْ فَإِنَّ ذَلِکَ مِنْ عَزْمِ الأُمُورِ﴾․(سور ہ آل عمران:186)(اور اگر تم صبر کرو اور تقوی اختیار کرو تو یہ تاکید ی احکام میں سے ہے)۔

اسلامی تربیت کے نتائج و ثمرات قرآن وسنت کی طرف رجوع کر کے ہی حاصل ہو سکتے ہیں،اس لیے کہ یہی دونوں اسلام کے اعلیٰ مقصد کے حصول کا سرچشمہ او رمنبع ہیں اور یہ اعلیٰ مقصد اطاعت الہٰی اور اتباع سنت رسول ہے اور انسان کی تمام جسمانی ،روحانی، عقلی صلاحیتوں کو انسانیت کی فلاح و بہبود کے لیے استعمال کرنا اور پھر ہر عمل میں رضا ئے الہٰی مطلوب ہو۔

قرآن کریم نے تربیت کو تعلیم سے مربوط کیا ہے:﴿ہُوَ الَّذِیْ بَعَثَ فِیْ الْأُمِّیِّیْنَ رَسُولاً مِّنْہُمْ یَتْلُو عَلَیْْہِمْ آیَاتِہِ وَیُزَکِّیْہِمْ وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَةَ وَإِن کَانُوا مِن قَبْلُ لَفِیْ ضَلَالٍ مُّبِیْنٍ﴾․(سورہ جمعہ۲)(وہی تو ہے جس نے امی لوگوں میں انہی میں سے ایک پیمبر بھیجا ،جو ان کو اللہ کی آیتیں پڑھ کر سناتا ہے اور انہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب و حکمت کی باتیں سکھاتا ہے درآنحالیکہ یہ لوگ پہلے سے کھلی گم راہی میں تھے)۔

قرآن کریم نے لفظ ”حکمت“کو اخلاق ،آداب اور گفتگومیں نرمی اور بردباری کے لیے استعمال کیا ہے،:﴿ادْعُ إِلِی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْہُم بِالَّتِیْ ہِیَ أَحْسَنُ﴾․(سورہ نحل:125) (آپ اپنے رب کی راہ کی طرف بلائیے حکمت سے اور اچھی نصیحت سے اور ان کے ساتھ بحث کیجیے پسندیدہ طریقہ سے)۔قرآن نے پوری زندگی میں حکمت اختیار کرنے،احسان کرنے اور انسان کے اکرام واحترام، جدوجہد اور عمل کی دعوت دی ہے۔

قرآن مجید کا نظام تربیت
کمانا اور جنسی خواہشات کو پورا کرنا انسانی فطرت کا تقاضہ ہے،لہٰذا انسان کی طبیعت بغیر کسی ترغیب و تلقین کے ان کی طرف مائل ہوتی ہے،قرآن کریم نے اس سلسلہ میں بھی سب سے الگ اور منفرد انداز اختیار کیا ہے،لہٰذا قرآن کریم نے حلال کمائی کی جگہیں اور طریقے اس طور پر متعین کیے ہیں کہ کسب معاش ذکراللہ کی راہ میں رکاوٹ نہ بنے،کیوں کہ انسان کی تخلیق کا اصل مقصد عبادت اللہ ہی ہے﴿وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِیَعْبُدُونِ﴾․ (سورہ ذاریات :56)(اور میں نے تو جن و انس کو پیدا ہی اس غرض سے کیا ہے کہ میری عبادت کیا کریں۔)قرآن ان لوگوں کا وصف بیان کرتے ہوئے کہتا ہے جنہوں نے عبادت اور تجارت کو تناسب کے ساتھ جمع کرلیا تھا:﴿رِجَالٌ لَّا تُلْہِیْہِمْ تِجَارَةٌ وَلَا بَیْْعٌ عَن ذِکْرِ اللَّہِ﴾․(سورہ نور:۳۷)(ایسے لوگ جنہیں نہ تو تجارت غفلت میں ڈالتی ہے، نہ خریدو فروخت اللہ کی یاد سے)﴿فَإِذَا قُضِیَتِ الصَّلَاةُ فَانتَشِرُوا فِیْ الْأَرْضِ وَابْتَغُوا مِن فَضْلِ اللَّہِ وَاذْکُرُوا اللَّہَ کَثِیْراً لَّعَلَّکُمْ تُفْلِحُونَ﴾․(سورہ جمعہ:10) (پھر جب نماز پوری ہو چکے تو زمین پر چلو اور اللہ کی روزی تلاش کرو اور اللہ کو بکثرت یاد کرتے رہو، تا کہ تم فلاح پاؤ)۔

قرآن نے کسب سے زیادہ انفاق پر زور دیا ہے،اس لیے کسب تو انسان کی فطرت میں داخل ہے،لہٰذا قرآن نے جگہ جگہ پر خرچ کرنے کے مواقع بیان کیے ہیں اور افرا د اور معاشروں کو مال کی محبت ،استحصال اور خود غرضی سے پاک کرنے پر ابھارا ہے ،اس لیے کہ یہی ہر بیماری کی جڑ ہے اور مال کی محبت سماج کے بگاڑ اور طبقاتی استحصال کا بنیادی سبب ہے۔

قرآن نے جس طرح انفاق پر زور دیا ہے اسی طرح جنسی خواہشات میں اسراف سے ڈرایا بھی ہے ،لہٰذا قرآن نے بار بار جنسی خواہشات میں اسراف اور انتہا پسندی کے خطرات سے آگاہ کیا ہے، حدود بیان کیے ہیں اور ان اسباب کو بیان کیا، جن سے انسان اس وبا کا شکار ہوتا ہے۔

سور ہ اسراء میں بہت سی ایسی آیات ہیں جنہیں اخلاقیات اور تربیت کا اعلامیہ کہا جاسکتا ہے اور ان سے قرآنی تربیت کا مفہوم سمجھ میںآ تا ہے،ان آیات میں انسانی زندگی کے تمام پہلوٴوں کو سمیٹ دیا گیا ہے اور انسانی طبیعت میں کمزور یاں کیا ہیں اور ان کا علاج کیاہے ،سب کوبیان کردیا گیاہے:

(اور تمہارے پروردگار نے فیصلہ کردیا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ،اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرتے رہو،اگر ان میں سے ایک یا دونوں تمہارے سامنے بڑھاپے کو پہنچ جائیں ،تو ان کو اف تک نہ کہواور نہ انہیں جھڑکنااور ان سے بات ادب کے ساتھ کرنااور عجز و نیاز سے ان کے ساتھ رہواور ان کے حق میں دعا کرو کہ اے پروردگار! جیسا انہوں نے مجھے بچپن میں شفقت سے پرورش کیا ہے تو بھی ان کے حال پر رحمت فرما،جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے تمہارا پروردگا ر اس سے بخوبی واقف ہے،اگر نیک ہوگے تو وہ رجوع کرنے والوں کو بخش دینے والا ہے اور رشتہ داروں اور محتاجوں اورمسافروں کو ان کا حق ادا کرو اور فضول خرچی سے مال نہ اڑاؤ ،کہ فضول خرچی کرنے والے تو شیطان کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے پروردگار (کی نعمتوں)کا کفران کرنے والا(یعنی ناشکرا)ہے اور اگر تم اپنے پروردگار کی رحمت (یعنی فراخ دستی)کے انتظار میں جس کی تمہیں امید ہو ان (مستحقین ) کی طرف توجہ نہ کر سکو تو ان سے نرمی سے بات کہ دیاکرواور اپنے ہاتھ کونہ گردن سے بندھا ہوا(یعنی بہت تنگ)کرلو،(کہ کسی کو کچھ دو ہی نہیں)اور نہ بالکل کھول ہی دو(کہ سبھی کچھ دے ڈالو اورانجام یہ ہوکہ)ملامت زدہ اور ہاتھ باندھ کر بیٹھ جاؤ،بے شک تمہارا پروردگار جس کی روزی چاہتا ہے فراخ کردیتا ہے اور جس کی روزی چاہتا ہے تنگ کردیتا ہے، وہ اپنے بندوں سے خبر دارہے اور ان کو دیکھ رہا ہے اور اپنی اولاد کو مفلسی کے خوف سے قتل نہ کرنا،کیوں کہ ان کو اور تم کو ہم ہی رزق دیتے ہیں،کچھ شک نہیں کہ ان کا مارڈالنا بڑا سخت گناہ ہے اور زنا کے پاس بھی نہ جانا کہ وہ بے حیائی اور بری راہ ہے اور جس جاندار کا مارنا خدا نے حرام کیا ہے اسے قتل نہ کرنا،مگر جائز طور پر (یعنی بہ فتوی شریعت) اور جوشخص ظلم سے قتل کیاجائے ہم نے اس کے وارث کو اختیار دیا ہے(کہ ظالم قاتل سے بدلہ لے)تو اس کو چاہیے کہ قتل (کے قصاص)میں زیادتی نہ کرے ،وہ منصور اور فتح یاب ہے،اور یتیم کے مال کے پاس بھی نہ پھٹکنا،مگر ایسے طریقے سے کہ بہت بہتر ہو، یہاں تک وہ جوانی کو پہنچ جائے اور عہد کو پورا کرو،کہ عہد کے بارے میں ضرور پرسش ہوگی اور جب کوئی چیز ناپ کردینے لگو تو پیمانہ پورا بھرا کرو اور جب تول کردو تو ترازو سیدھا رکھ کر تولا کرو،یہ بہت اچھی بات ہے اور انجام کے لحاظ سے بھی بہت بہتر ہے اور اے بندے! جس چیز کا تجھے علم نہیں اس کے پیچھے نہ پڑکہ کان اور آنکھ اور دل ان سب جوارح سے ضرور باز پرس ہوگی اور زمین پر اکڑ کر اور تن کرمت چل کہ تو زمین کو پھاڑ تو نہیں ڈالے گااور نہ لمباہو کر پہاڑوں کی چوٹی تک پہنچ جائے گا،ان سب عادتوں کی برائی تیرے پروردگا ر کے نزدیک بہت ناپسند ہے،اے پیغمبر! یہ ان ہدایتوں میں سے ہے جو خدا نے دانائی کی باتیں تمہاری طرف وحی کی ہیں اور خدا کے ساتھ کوئی اور معبود نہ بنانا کہ ایسا کرنے سے ملامت زدہ اور درگاہ خداسے راندہ بنا کر جہنم میں ڈال دئے جاؤ گے۔)(سورہ بنی اسرائیل،33تا۔39)

قرآنی نظام تربیت کا اعلامیہ
مندرجہ بالا آیات کی روشنی میں قرآنی نظام تربیت کا چارٹریہ ہے:
1…خدائے واحد کی عبادت کی جائے۔
2…والدین کے ساتھ حسن سلوک کیا جائے اور ان کا پورا پورا خیال رکھا جائے ۔
3…ہروقت یہ خیال رکھا جائے کہ اللہ تعالیٰ دلوں کے بھیدوں کو جانتا ہے ۔ اس عقیدہ و ذاتی تصور سے تنہائی اور پردہٴ خفا میں بھی شرکے منافذ بند ہو جاتے ہیں اور اسلام نے یہ تصور دے کر ایک ایسا نگراں مقرر کردیا ہے جو کھلے چھپے ہر حال میں انسان کی نگرانی کرتا ہے۔
4…قرابت داروں ،مسکینوں اور غریبوں و ناداروں کے ساتھ حسن سلوک کیا جائے ،اس طرح اسلام نے استحصال کے تمام راستے بند کر دیے۔
5…زندگی میں میانہ روی اختیار کی جائے،فضول خرچی نہ کی جائے،بخل سے کام نہ لیا جائے،کسب معاش کے دوران یہ خیال رہے کہ یہ اللہ کادیا ہوا رزق ہے ، اس لیے اس کو صحیح طریقوں سے حاصل کیا جائے اور جائز جگہوں پر خرچ کیا جائے۔
6…اسلامی قدروں کا حامل سماج تشکیل دینے کے لیے اولاد کی صحیح تربیت کی جائے ۔
7…خواہشات کی تکمیل میں انتہا پسندی سے بچا جائے، تا کہ سماج میں اخلاقی اور سماجی بے راہ روی اور انا ر کی پیدانہ ہو۔
8…قتل ناحق سے گریز کیا جائے،تاکہ اجتماعی امن وامان قائم رہے، انسان کی زندگی محفوظ رہے اور ایک ایسا سماج وجود میں آئے جو با مقصد اور پر امن ہو۔
9…یتیم کے مال میں تصرف میں حتی الامکان احتیاط برتی جائے۔
10…عہدو پیمان کو پورا کیا جائے ۔
11…ناپ تول پورا پورا کیا جائے ۔
12…دوسروں کی ٹوہ میں نہ پڑا جائے اور افواہیں نہ پھیلائی جائیں۔
13…تکبر ،گھمنڈ اور غرور سے بچا جائے ۔

اسلامی نظام تربیت کے اس عالمی اور انسانی اعلامیہ کی ہمسری متمدن دنیا کا کوئی بھی نظام تعلیم و تربیت نہیں کرسکتا ،اسلامی نظام تربیت سب سے پہلے انسان کی فکرو عقیدہ ،اس کے سلوک اوراس کے جذبات کی اصلاح کرتا ہے،پھر اس کی صلاحیتوں کی آب یاری کرتا ہے،انفرادی اور اجتماعی زندگی میں انسان کی بھر پور راہ نمائی کرتا ہے اور انسان کو ذاتی مفاد کے تنگ دائرہ سے نکال کر اعلیٰ مقصد کے راستہ پر گامزن کرتا ہے اور زندگی کے اعلیٰ ترین تصور حیات سے روشناس کراتا ہے۔

مذکورہ بالا اور دیگر آیات قرآنی میں، جن میں تعلیم و تربیت کے بنیادی خطوط بیان کیے گئے ہیں اور آداب زندگی اور اخلاقیات کی تعلیم دی گئی ہیں اور دنیا میں انسان کے مقصد اور منصب کو بیان کیا گیا ہے،غور کرنے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اسلامی نظام تربیت ہی انسانی معاشرے میں پائے جانے والے کرپشن اور بگاڑ کا واحد علاج ہے ۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ میری بعثت مکارم اخلاق کی تکمیل کے لیے ہوئی ہے،حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہافرماتی ہیں کہ آپ کے اخلاق قرآن کا پر تو ہیں،ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُولِ اللَّہِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَن کَانَ یَرْجُو اللَّہَ وَالْیَوْمَ الْآخِرَ وَذَکَرَ اللَّہَ کَثِیْراً ﴾․(سورہ احزاب :21)
(رسول اللہ کا ایک عمدہ نمونہ موجود ہے تمہارے لیے، یعنی ایسے شخص کے لیے جو اللہ سے اور روز آخرت سے ڈرتا ہو اور کثرت سے ذکر الہٰی کرتا ہو۔)﴿قُلْ إِن کُنتُمْ تُحِبُّونَ اللّہَ فَاتَّبِعُونِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّہُ وَیَغْفِرْ لَکُمْ ذُنُوبَکُمْ وَاللّہُ غَفُورٌ رَّحِیْمٌ﴾․(سور ہ آل عمران:31)
(آپ یہ فرما دیجیے کہ اگر تم اللہ تعالیٰ سے محبت رکھتے ہو تو تم لوگ میری اتباع کرو اللہ تعالی تم سب سے محبت کرنے لگیں گے اور تمہارے سب گناہوں کو معاف کردیں گے اور اللہ تعالیٰ بڑے معاف کرنے والے اور بڑی عنایت فرمانے والے ہیں)
Flag Counter