Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق ربیع الثانی 1434ھ

ہ رسالہ

1 - 18
بنیادی اسلامی حقوق
عبید اللہ خالد
زندگی میں انسان تنہا نہیں ہے۔ اس دنیا میں وہ اگر چہ اکیلا آیا ہے اور اکیلے ہی اُسے جانا ہے، مگر وہ اس دُنیا میں اکیلے زندگی بسر نہیں کرسکتا، خاص طور پر مسلم معاشرہ کہ جہاں مسلمان ایک دوسرے کے ساتھ رہتے ہیں، آپس کے معاملات کرتے ہیں ، ایک مسلمان دوسرے مسلمان کی ضرورت ہوتا ہے ۔ کوئی فرد اگر یہ سمجھ لے کہ اس کے پاس وافر وسائل موجود ہیں اور اسے دوسرے انسانوں کی ضرورت نہیں رہی تو یہ ایک بہت ہی بڑی غلط فہمی ہو گی۔

آج سماجی ڈھانچا کچھ اس طرح سے تشکیل دیا گیا ہے کہ لوگ ایک دوسرے سے ملنے کی بہ جائے کٹنے کو ترجیح دیتے ہیں، میل ملاقات کی جگہ دُوری کو فوقیت حاصل ہو گئی ہے۔مسلمانوں کی اجتماعی زندگی میں اس بات کی بڑی اہمیت اور ضرورت ہے کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کے لیے اپنے دل میں وسعت رکھے اور اس کے ساتھ بلاکسی مصلحت اور غرض کے روا داری اختیار کرے؛ محبت و خلوص سے پیش آئے۔ او رایک مسلمان کا دوسرے مسلمان پر جوشرعی، سماجی اوراخلاقی حق ہے، اس کو دل جمعی او رتن دہی سے پورا کرے۔

اس کے برخلاف آج مسلمانوں کا اجتماعی اور سماجی نظام لسانی، سیاسی اور فرقہ وارانہ مفادات میں بٹ چکا ہے۔ اس میں اس قدر شدت آچکی ہے کہ مسلمانوں کی ایک جماعت کا مسلمان رکن، دوسری جماعت کے مسلمان کے بنیادی اسلامی حقوق بھی ادا کرنے کا روادار نہیں رہا۔ اسے یہ خوف کھائے جاتا ہے کہ اگر اس نے ایسا کیا تو کہیں خود اس کے ہم جماعت و ہم خیال افراد ہی اسے طعن و تشنیع کا نشانہ نہ بنا ڈالیں۔ دوسری جانب عام سماجی اور معاشرتی زندگی میں بھی اگر دیکھا جائے تو ہمیں یہ مزاج یوں غالب نظر آتا ہے کہ ذرا کسی بات پر اختلاف ہوا، اس اختلاف کو تسلیم کرنے اور اس کے پس منظر و پیش منظر پر کشادہ دلی سے غور کرنے کے بجائے کوشش یہ کی جاتی ہے کہ اس فرد سے کہ جس سے رائے کا اختلاف ہوا ہے، کنارہ کشی کی جائے اور اس کے خلاف گفتگو شروع کردی جائے۔ یہ برتاؤ دفتروں، گھروں، محلوں اور خاندانوں میں عام سے عام تر ہوتا جارہا ہے۔ پھر یہ رائے کا معمولی اختلاف بڑھتے بڑھتے انتہائی شکل اختیار کرجاتا ہے، اور دفتروں اورخاندانوں میں دھڑے بندیاں شروع ہوجاتی ہیں۔

اس پر مستزاد، اسے حق گوئی اور مصلحت کوشی کا نام دے دیا جاتا ہے۔

سوال یہ نہیں کہ اختلاف کیا جائے یا نہ کیا جائے؟ اختلاف تو ایک فطری عمل ہے۔ اصل نقطہ یہ ہے کہ اس اختلاف کی حدود کیا ہونی چاہئیں اور اسے کیوں کر برتنا چاہیے؟

اسلام اس معاملے میں بھی بڑے واضح احکام اور اصول فراہم کرتا ہے۔ شرعاً اختلاف خواہ دو افراد کے درمیان ہو یا اداروں کے درمیان، مستحسن ہے مگر اسے اپنی ناک اور انا کا مسئلہ بنا لینا قطعاً اخلاقی اور سماجی اقدار کے تحت درست نہیں اور نہ اسلام اس کی اجازت دیتاہے۔

ایک مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ سماجی تقاضوں کو عین شریعت کے مطابق پورا کرے اور اپنی ذاتی مصلحتوں اورخواہشوں کو بالائے طاق رکھ کر معاشرے میں اپنی زندگی بسر کرے۔ مسلمان وہ ہے کہ جسے معاشرے کے ایک رکن کی حیثیت سے اپنی اسلامی ذمے داریوں اور حدود کا علم ہو اور وہ ان کے مطابق اپنی زندگی گزارے۔ جب ہر مسلمان اپنے اپنے دائرے میں اس انداز سے زندگی گزارے گا تو یہ معاشرہ جنت نظیر بن سکتاہے۔ ان شاء اللہ تعالیٰ!
Flag Counter