تسبیح، شرعی نقطہٴ نظر
مفتی محمد مجیب الرحمن دیودرگی
آج ہر طرف بدعت کا شور وغلغلہ ہے، ہر کوئی بدعت کا واویلہ مچارہا ہے، جو بھی چیز نظر آئے اسے بلا دھڑک بدعت کہتے ہوئے کوئی جھجک نہیں ہوتی، جو خود بدعت کی تعریف سے نا آشنا وہ بھی بدعت کی صدا لگارہا ہے، ہر نئی چیز کو بدعت کہنے والوں کو یہ سوچنا چاہیے، کہ فی زمانہ سب سے بڑی بدعت جو عوام میں فروغ پارہی ہے وہ یہ ہے کہ عوام میں فروعی اختلافی مسائل کی تشہیر کی جارہی ہے، اس پر دیدہ دلیری بھی ہے کہ اس پر دینی خدمت کا حسین عنوان ہے، حالاں کہ صدرِ اول ، دورِ صحابہ وتابعین میں اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی، صحابہ کرام کے مابین سینکڑوں مسائل میں اختلاف تھا(اگر کوئی ان اختلافی مسائل کو جمع کرنا شروع کرے تو یہ خود ایک انسائیکلو پیڈیا کی شکل اختیار کرجائے) اس کے باوجود کوئی ان کی تبلیغ وتشہیر نہیں کرتا، تسبیح جو اذکار کے شمار کرنے کے لیے بہترین آلہ ہے، اس پر بھی ایک طبقہ نے بدعت کا لیبل چسپاں کرنے کی سعی نا مسعودکی ہے، احادیث ِمبارکہ وآثارِ صحابہ وتابعین کی من گھڑت تاویلات کے ذریعہ اس کے استعمال کنندہ کو بدعتی کہنا شروع کردیا،ذیل میں اسی کے متعلق سرسری جائزے کی کوشش کی گئی ہے، واضح رہے کہ تسبیح بذات خود کوئی مقصود نہیں، بلکہ یہ ذکر تکبیر، تہلیل، تقدیس شمار کرنے کے لیے وسیلہ وذریعہ ہے، اوروسائل کا حکم مقاصد کے تابع ہوتا ہے، لہٰذا حرام کا وسیلہ بھی حرام ہوگا اور واجب کا وسیلہ بھی واجب ہوتا ہے، بعض دفعہ اذکار شمار کرنے میں دقت ہوتی ہے اور اذکار کی مخصوص مقدار کی بھی اہمیت احادیث ِمبارکہ میں وارد ہوئی ہے، اسی لیے تسبیح کی ضرورت ہوتی ہے۔( وصول التھانی ص:49) ، یادرہے کہ تسبیح ایک تو عمل کا نام ہے، دوسرے آلہٴ تسبیح کو بھی اردو میں تسبیح ہی سے تعبیر کیا جاتا ہے، زیرِ نظر مضمون کا تعلق آلہٴ تسبیح سے ہے، نہ کہ عمل سے۔
تسبیح کے سلسلہ میں احادیث
احادیث مبارکہ میں جہاں یہ بات مذکور ہے کہ ذکر میں کثرت مطلوب ہے، وہیں یہ بھی مذکور ہے کہ تسبیح کے لیے قرنِ اول ہی سے کھجور کی گٹھلیوں اور کنکریوں کے استعمال کا چلن تھا، ایک حدیث امام حاکم نے اپنی کتاب میں ذکر کی ہے:حدثنا اسماعیل بن أحمد الجرجانی، ثنا محمد بن الحسن بن قتیبة العسقلانی، ثنا حرملة بن یحیی، نبأنا ابن وہب، أخبرنی عمروبن الحارث أن سعید بن أبی ہلال حدثہ عن عائشة بنت سعد بن أبي وقاص عن أبیہا: أنہ دخل مع النبي ﷺ علی إمرأة، وبین یدیہا نویٰ أو حصی، أٰخبرک بما ہو یسر علیک من ہذا أو أفضل الخ․ (مستدرک علی الصحیحین732/1 2009 کتاب الدعاء) علامہ ذہبی نے اس حدیث پر سکوت اختیار کیا ہے، لہٰذا علامہ ذہبی کی خاموشی صحت پر دلالت کررہی ہے۔
عن أبی نضرة عن رجل من الطفاوة قال: نزلت علی أبی ہریرة، ومعہ کیس فیہ حصی أو نوی، فیقول: سبحان اللہ، سبحان الله، حتی إذا نفد ما فی الکیس ألقاہ إلی جاریة سوداء، فجمعتہ، ثم دفعتہ إلیہ․ (ابن ابی شیبہ: 7734 ،باب فی عقد التسبیح تحقیق محمد عوامہ)
ترجمہ: ابو نضرہ طفاوہ قبیلہ کے ایک آدمی سے نقل کرتے ہیں کہ وہ ابوہریرة کے پاس گئے، ان کے پاس ایک صندوق میں کنکریاں اور کھجور کی گٹھلیاں تھیں، اس سے سبحان اللہ کہ کر شمار کررہے تھے، جب وہ صندوق سے ختم ہوجاتے تو وہ ایک سیاہ باندی کو دے دیتے وہ اس کو جمع کرکے دوبارہ دے دیتی۔
حدثنا محمد بن بشار حدثنا عبد الصمد بن عبد الوارث، حدثنا ہاشم، وہو ابن سعید الکوفی، حدثنی کنانة مولی صفیة، قال: سمعت صفیة تقول: دخل علي رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم، وبین یدی أربعة آلاف نواة، أسج بہا، فقال: لقد سبحت بہذا ألا اعلمک باکثر مما سبحت بہ؟ فقلت بلیٰ، علمني، فقال: قولی، سبحان اللہ عدد خلقہ․ (سنن الترمذی 3477 ،باب فی دعاء النبی )۔
ترجمہ: کنانہ، جو صفیہ کے غلام ہیں ،انہوں نے صفیہ کو فرماتے ہوئے سنا کہ وہ فرماتی ہیں: ایک دفعہ آپ صلى الله عليه وسلم میرے پاس آئے اور میرے سامنے چار ہزار کھجور کی گٹھلیاں تھیں، جن سے میں تسبیح پڑھ رہی تھی، آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: تم ان سے تسبیح پڑھ رہی ہو، تمہیں ان سے زیادہ تسبیح والی چیز سمجھاوٴں؟ تو صفیہ نے اثبات میں جواب دیا، آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: سبحان اللہ عدد خلقہ پڑھا کرو۔ امام ترمذی نے اس حدیث پر کلام کرتے ہوئے فرمایا، یہ حدیث غریب ہے، ہمیں حضرت صفیہ سے اسی واسطے سے پہنچی ہے، اس پر امام حاکم نے فرمایایہ حدیث صحیح الاسناد ہے، اس کو بخاری اور مسلم نے ذکر نہیں کیا ہے۔ اور اس حدیث کے لیے اس سے اچھی سند سے شاہد بھی موجود ہے۔ اس پر علامہ ذہبی نے سکوت فرمایا ہے۔ (مستدرک علی الصحیحین مع التعلیق732/1 2008 کتاب الدعاء )۔
تسبیح فقہاء ومحدثین کی نظر میں
علامہ ابن تیمیہ نے تسبیح کے سلسلہ میں فرمایا: انگلیوں سے تسبیح شمار کرنا یہ سنت ہے، نیز کھجور کی گٹھلیوں سے اور کنکریوں سے شمار کرنا بہتر ہے، صحابہ کرام اس طرح کرتے تھے، خود آپ صلى الله عليه وسلم نے ام الموٴمنین کو اس طرح کرتے دیکھا اور اس کی تصویب بھی کی ، نیز ابوہریرة سے بھی اسی طرح کا عمل مروی ہے، نیزہ وہ تسبیح جو لڑی میں پروئی جاتی ہے، اس کے سلسلہ میں فرمایا یہ بہتر ہے ، ناپسندیدہ نہیں۔ (مجموع الفتاوی)
علامہ ابن قیم نے فرمایا: انگلیوں سے شمار کرنا تسبیح مشہور سے افضل ہے۔ (الوابل الصیب 143/1) انہوں نے تسبیح کو بدعت نہیں قرار دیا، نیز علامہ شوکانی فرماتے ہیں: حضرت سعد وصفیہ کی احادیث سے گٹھلیوں اور کنکریوں سے شمار کرنا جائز ثابت ہورہا ہے، اسی طرح تسبیح مشہور کے ذریعہ بھی، چوں کہ اس کا کوئی مقابل نہیں ہے اور آپ صلى الله عليه وسلم نے حضرت صفیہ کے عمل پر نکیر بھی نہیں کی۔ (نیل الاوطار366/2)
مشہور عالم عبد الرحمن مبارک پوری نے علامہ شوکانی کی عبارات سے استدلال کرتے ہوئے یہی نتیجہ اخذ کیا ہے کہ تسبیح مشہور ذکر کرنے کے لیے استعمال کی جاسکتی ہے، اس میں کوئی قباحت نہیں ہے ، نیز اس سلسلہ میں انہوں نے علامہ سیوطی کے رسالہ المنحة فی السبحة کے حوالے سے کئی نقول پیش کیے، تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیں۔ (تحفة الاحوذی 286/8)
ماضی قریب کے مشہور عرب عالم دین علامہ فوزان نے بھی تسبیح کے جواز پر فتوی دیا ہے، وہ رقم طراز ہیں: ویباح استعمال السبحة لیعد بہ الأذکار والتسبیحات من غیر اعتقاد أن فیہا فضیلة خاصة․ (مولفات الفوزان 40/25) تسبیح کا استعمال اذکار وغیرہ کے لیے درست ہے، البتہ اس میں کسی خاص فضیلت کا اعتقاد نہ رکھے۔
تسبیح کے سلسلہ میں مشہور فقیہ علامہ ابن نجیم مصری اور ابن عابدین شامی (متوفی 1252ھ) فرماتے ہیں:
آپ صلى الله عليه وسلم نے کنکریوں اور کھجور کی گٹھلیوں کو دیکھ کر انکار نہیں فرمایا، بلکہ اس سے آپ نے اور افضل کی طرف راہ نمائی کی، اگر یہ چیز نا پسند ہوتی تو آپ صلى الله عليه وسلم ضرور اس کو بیان کردیتے، پھر یہ اور اس جیسی احادیث تسبیح مشہور کے استعمال کو جائز قرار دیتی ہیں اذکار کے شمار کرنے کے لیے۔(البحر الرائق154/4) (رد المحتار54/5) شاملہ
فقہاء ومحدثین کی ان تصریحات اور اکابر امت کے اس عمل کے پیش نظر ہی علامہ جلال الدین سیوطی (متوفی 911ھ) نے لکھا ہے کہ سلف اور خلف میں سے کسی سے بھی تسبیح پر نکیر منقول نہیں ہے، بلکہ اکثر لوگ اسے استعمال کرتے تھے اور کوئی اسے نا پسند نہیں کرتا تھا (الحاوی فی الفتاوی 5/3) باب المنحة) ، اس لیے طحطاوی نے ابن حجر کے حوالے سے لکھا ہے کہ تسبیح کی روایت کھجور کی گٹھلیوں اور کنکریوں سے بہت سے صحابہ سے مروی ہے حتی کہ بعض امہات الموٴمنین سے بھی، بلکہ آپ صلى الله عليه وسلم نے اس کو دیکھ کر اس کی تقریر کی ، کوئی نکیر نہ کی، ذکر کے لیے انگلیوں کا استعمال بہر صورت مستحسن ہے، اگر غلطی سے بچنے کا اندیشہ نہ ہو تو تسبیح کا استعمال اولی ہے۔ (مسوسوعہ فقہیہ 284/11) اس لیے علامہ مناوی نے لکھا ہے کہ جس شخص کا مطلوب ذکر میں حضوری قلب ہو اور زبان کی بھی معیت رہے تو ایسے شخص کے لیے تسبیح کا استعمال مستحب ہے، اگر تسبیح کی رنگت میں اور اس کی دیگر چیزوں میں مشغول رہنے کا اندیشہ ہو تو اس کے لیے تسبیح کا استعمال نا مناسب ہے۔(فیض القدیر 468/4)
تسبیح اور اکابر
اکابر صوفیاء ِکرام تسبیح استعمال کرتے تھے، صوفیائے کرام ملت کے وہ معزز ین ہیں جن کے روحانی اثرات سے دنیا معطر ومعمور ہوئی ہے، اب ان کے افعال کو بلادلیل بدعت قرار دینا کہاں تک درست ہے، جنید بغدادی جو اکابر صوفیاء میں ہیں ان سے واردین نے سوال کیا کہ کیا آپ اب بھی تسبیح کے ذریعہ ذکر کرتے ہیں تو وہ جوابا فرماتے ہیں: ”طریق وصلت بہ إلی ربی لا أفارقہ“․ (فیض القدیر468/4) کہ اس راستے کو اپنا کر ہم اپنے رب تک پہنچے ہیں، اس کو نہیں چھوڑ سکتے۔ نیز یہ بھی فرمایا کہ اس کو ہم نے ابتدا میں استعمال کیا ہے، انتہا میں نہیں چھوڑ سکتے اور میں اس بات کو پسند کرتا ہوں میرا دل، میری زبان اور میرا ہاتھ تینوں ذکر میں مشغول ہوں۔(ایضا)
مشہور عابدابومسلم خولانی کے ہاتھ میں تسبیح ہوتی، اسے استعمال کیا کرتے تھے، ایک مرتبہ سوتے ہوئے تسبیح لے کر سوگئے، تسبیح ہاتھ ہی میں رہ گئی، پھر بیدار ہوئے تو تسبیح ذکر کرتے ہوئے گھمانے لگے۔ (الحاوی5/2)
عبد اللہ یونینی نے اپنے ساتھیوں کو صبح کی نماز پڑھائی، پھر تسبیح لے کر ذکر میں لگ گئے، اسی حال میں وفات پاگئے، وہ خود بھی انتقال کے بعد نہ گرے اور ہاتھ سے تسبیح بھی نہ چھوٹی۔ (البدایہ والنہایہ 111/13)
فاطمہ بنت حسین بن علی کے سلسلہ میں مذکور ہے کہ انہوں نے دھاگے میں کچھ دانوں کو پرو رکھا تھا، جس سے وہ تسبیح کیا کرتی تھیں۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں کہ تسبیح کیا ہی بہترین ذکر کو یادد لانے والی ہے۔ (نیل الاوطار366/2)
حضرت ابودرداء کے پاس ایک صندوق میں عجوہ کھجور کی گٹھلیاں رکھی تھیں، جب بھی ظہر کی نماز ادا کرتے تو اسے نکال کر تسبیح پڑھا کرتے تھے، حضرت ابوہریرہ کے پاس ایک صندوق تھا، جس میں کنکریاں یا کھجور کی گٹھلیاں تھیں، جس سے وہ تسبیح کیا کرتے تھے، شیخ عبد القادر جیلانی کے پاس ایک تسبیح تھی، پڑھتے ہوئے ایک ایک دانہ ہٹایا کرتے تھے، تسبیح کے سلسلہ میں ایک روایت مسلسل بھی ذکر کی گئی ہے، حسن بصری، سری سقطی، جنید بغدادی، معروف کرخی، عمر مکی، ابوالحسن علی بن الحسن، ابونصر عبد الوہاب، ابوبکر محمد بن علی سلمی، محمد بن عبد اللہ بن احمد السمرقندی، ابوالفضل بن ناصر کو تسبیح کے استعمال کنندگاں میں شمار کیا گیا ہے۔ (الحاوی للفتاوی السیوطی 5/3 ،باب المنحة فی السبحة)
ذکر کثیر اور تسبیح
ابوالدرداء بن عویمر روزانہ ایک لاکھ مرتبہ تسبیح پڑھا کرتے تھے، خالد بن معدان روزانہ چالیس ہزار مرتبہ تسبیح پڑھتے تھے، اب یہ بات غور کرنے کی ہے کہ ایک لاکھ اور چالیس ہزار کیسے انگلیوں پر گنتے تھے، لہٰذا وہ آلات کا استعمال کرتے تھے، امام ترمذی نے روایت نقل کی ہے کہ عمر بن ہانی ہر دن ایک ہزار رکعت نفل نماز پڑھتے اور ایک لاکھ تسبیح پڑھا کرتے، اس فصل میں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ البانی کے قول کی کیا حیثیت ہے؟ بلکہ البانی کا تسبیح کا انکار ایک دوسری بدعت کو جنم دے رہا ہے، وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ کا ذکر متعین عدد ہی میں کرو اور اس سے زیادہ کی کوشش مت کرو، حالاں کہ شارع حکیم نے امت کو اس کاحکم نہیں دیا، اس بدعت ہی نے البانی کو تسبیح کو بدعت کہنے پرمجبور کردیا۔ (وصول التہانی ص:46)
اسی لیے فتوحاتِ ربانیہ میں مذکورہے: بہر حال جب زیادہ مقدار میں ذکر کا ارادہ ہو اور دوسری جانب اشتغال کا اندیشہ ہو تو ایسی صورت میں تسبیح کا استعمال افضل ہے۔ (الفتوحات الربانیہ 251/1)
نیز تسبیح کے فوائد میں سے یہ مذکور ہے جب بھی آدمی کی نظر اس پرپڑے تو اللہ کے ذکر کی یاد تازہ ہوتی ہے، اس سے ذکر پر مداومت وہمیشگی ہوتی ہے، بعض لوگوں نے فرمایا: التسبیح مَرَدَة الشیطان، کہ تسبیح شیطان کے لیے کوڑا ہے۔ بعض اکابر صوفیہ نے اس کا نام الحبل الموصل (پہنچانے والی رسی) رکھا ہے، بعض نے اس کا نام رابطة القلوب رکھا ہے۔ (الحاوی 5/3) بعض لوگوں نے اعتراض کیا کہ تم اللہ کا ذکر شمارکر کے کرتے ہو؟ تو جواب دیا گیا کہ اللہ کا ذکر اس تعداد میں کرنا چاہتا ہوں، جس کا تذکرہ سنت مبارکہ میں آیا ہے، اگر اس کو انگلیوں میں شمار کرنے لگوں تو ذکر کا خشوع جاتا رہے گا۔ (الحاوی للسیوطی 5/3)
تسبیح کا غلط استعمال
بعض وہ افراد جن کا مقصود دین وشریعت سے ہٹ کر ہواپرستی ہوا کرتا ہے، جو شریعت کی آڑ میں اپنی دوکان چلانے کے دُھن میں ہوتے ہیں، ایسے افراد اپنا حلیہ اس طرح پیش کرتے ہیں کہ جس سے یہ محسوس ہو کہ دین کی تمام چیزوں کو انہوں نے ہی اختیار کیا ہے، اس کے لیے مختلف طریقہٴ کار اپناتے ہوئے امت کو گم راہ کرتے ہیں، انہیں میں ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ اپنے گلے میں مختلف قسم کے ہار ڈالتے ہیں، جس میں تسبیح بھی ہوا کرتی ہے،اس کے ناپسندیدہ وشنیع ہونے میں کوئی کلام نہیں ہے، چناں چہ مولفات فوزان میں ہے: جو تسبیح کو اپنے گردنوں میں زیورات وغیرہ کی طرح ڈالتے ہیں یہ ناپسندیدہ ہونے کے ساتھ اس میں ریاکاری وتکلف بھی ہے۔ (40/25)
علماء ِحق کے کسی بھی طبقہ میں یہ صورت مروج نہیں، چندا فراد کے غلط استعمال کو لے کر اسے بدعت قرار دینا کہاں کی دانش مندی ہے، ہمیں اس کے غلط استعمال پر نکیر کرنے کا برابر اختیار ہے، لیکن اس میں حدود سے تجاوز کی گنجائش نہیں، اللہ تعالیٰ تسبیح کے باب میں افراط وتفریط سے ہماری حفاظت فرمائے۔ آمین!