Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق ربیع الثانی 1434ھ

ہ رسالہ

7 - 18
ملائکہ کی حقیقت اور ان کی صفات
استاذ المحدثین حضرت مولانا شیخ سلیم الله خان صاحب زید مجدہ

ہر باطل فرقہ اپنی آواز کو مؤثر بنانے کے لیے بظاہر قرآن کریم ہی کی دعوت لے کر اٹھتا ہے، بالخصوص موجودہ زمانے میں یہ فتنہ بکثرت پھیل رہاہے ، اس لیے استاذ المحدثین حضرت مولانا شیخ سلیم الله خان صاحب زید مجدہ کی دیرینہ خواہش تھی کہ قرآن کریم کی اردو میں ایسی جامع تفسیر منظر عام پر لائی جائے جس میں فرق باطلہ کے مستدلات کا تفصیلی علمی تعاقب کرکے اہلسنت والجماعت کا مؤقف واضح کر دیا جائے، چناں چہ اس مقصد کے پیش نظر جامعہ کے شعبہ دارالتصنیف میں حضرت کے افادات مرتب کرنے کا سلسلہ جاری ہے ، الله تعالیٰ اپنی توفیق سے اسے پایہٴ تکمیل تک پہنچائے او رحضرت کا سایہ تادیر ہم پر قائم رکھے۔ آمین۔ (ادارہ)

﴿وَہُوَ بِکُلِّ شَیْْء ٍ عَلِیْم﴾․(بقرہ، آیت:29)
الله تعالیٰ کی ایک صفت علم ہے
﴿وَہُوَ بِکُلِّ شَیْْء ٍ عَلِیْم﴾․ الله تعالیٰ کی ایک صفت علم ہے ۔ یعنی وہ ہر چیز سے واقف اور باخبر ہے ۔ خالق کائنات ہونے کی حیثیت سے اس کا تقاضا بھی یہی ہے کہ اس کا علم اپنی ذات تک محدود نہ ہو، بلکہ کائنات میں موجود تمام اشیا او رمخلوقات کی کلیات وجزئیات تک پھیلا ہوا ہو۔

﴿وَمَا تَکُونُ فِیْ شَأْنٍ وَمَا تَتْلُو مِنْہُ مِن قُرْآنٍ وَلاَ تَعْمَلُونَ مِنْ عَمَلٍ إِلاَّ کُنَّا عَلَیْْکُمْ شُہُوداً إِذْ تُفِیْضُونَ فِیْہِ وَمَا یَعْزُبُ عَن رَّبِّکَ مِن مِّثْقَالِ ذَرَّةٍ فِیْ الأَرْضِ وَلاَ فِیْ السَّمَاء وَلاَ أَصْغَرَ مِن ذَلِکَ وَلا أَکْبَرَ إِلاَّ فِیْ کِتَابٍ مُّبِیْنٍ﴾․ (سورہ یونس، آیت:61)
ترجمہ: ”اور نہیں ہوتا تو کسی حال میں اور نہ پڑھتا ہے اس میں سے کچھ قرآن او رنہیں کرتے ہو تم لوگ کچھ کام کہ ہم نہیں ہوتے حاضر تمہارے پاس جب تم مصروف ہوتے ہو اس میں اور غائب نہیں رہتا تیرے رب سے ایک ذرہ بھر زمین میں اور نہ آسمان میں اور نہ چھوٹا اس سے اور نہ بڑا جو نہیں ہے کھلی ہوئی کتاب میں۔“

کیا الله تعالیٰ جزئیات زمانی سے آگاہ نہیں
فلاسفہ کی ایک جماعت کا دعوی ہے کہ الله تعالیٰ جزئیات زمانی سے واقف نہیں ہے، اس کا دائرہ علم اپنی ہی ذات میں سمٹا ہوا ہے۔ البتہ جمہور فلاسفہ کا نقطہٴ نظر یہ ہے کہ الله تعالیٰ جزئیات زمانی جانتا تو ہے، مگر جزئیات زمانی کی حیثیت سے نہیں، بلکہ کلی کی حیثیت سے ۔ (المسامرة:68)

مثلاً: ازل سے اس کے علم میں ہے کہ افلاک کی حرکتِ دوریہ کی بدولت شمس وقمر کا ایک نظام قائم ہو گا، اس نظام کے تحت جب چاند ، سورج کے آمنے سامنے ہو گا تو سورج گریہن کا واقعہ رونما ہو گا۔ اس اسلوبِ کلی کی حیثیت سے تو الله تعالیٰ کو سورج گرہن ہونے کی تمام جزئیات کا علم ہے ، لیکن یہ علم جزئیات زمانی کو شامل نہیں ، یعنی کب او رکس وقت سورج گرہن کا واقعہ معرض ظہور میں آئے گا؟ او رکس وقت اختتام پذیر ہو گا؟ علم الہی کی یہی صورت انسان کے متعلق بھی ہے کہ وہ انسان کے عوارض وکوائف سے مکمل واقف ہے، لیکن خالد وعمر کے احوالِ شخصیہ کیا ہیں ؟ او روہ کب رونما ہوں گے ؟ اس سے وہ لاعلم ہے ، کیوں کہ ان سے آشنائی کی صورت عقلی نہیں حسی ہے اور وہ حسیات سے ماورا او رمنزہ ہے۔

فلاسفہ کی دلیل
فلاسفہ کہتے ہیں اگر یہ تسلیم کر لیا جائے کہ علم الہٰی کی وسعت جزئیات زمانی تک پھیلی ہوئی ہے تو اس سے کئی خرابیاں لازم آتی ہیں۔ مثلاً: اسی سورج گرہن کا واقعہ لیجیے۔ اس کا تجزیہ کرنے سے اس کی مختلف کیفیتیں سامنے آئیں۔
1...پہلے سورج گرہن نہیں ہوا تھا، لیکن متوقع تھا۔
2...سورج گرہن ہوا۔
3...گرہن ختم ہو گیا، لیکن اس سے پہلے موجود تھا۔
ان تین مختلف کیفیتوں سے علم کی تین نوعیتیں ابھریں۔ اب اگر علم الہی جزئیات زمانیہ کا بھی احاطہ کیے ہوئے ہو تو علم میں تغیر اور تعدد لازم آئے گا، اس لیے کہ علم الہی جب اس بات سے متعلق تھا کہ فلاں وقت سورج گرہن ہوا ہے تو خلافِ حقیقت ہونے کی وجہ سے جہل ہو گا، کیوں کہ ازل میں فلک تھا ،نہ نظامِ شمس وقمر تھا او رجب علم الہی اس بات سے متعلق تھا کہ فلاں وقت سورج گرہن ہو گا، تو یہ واقعہ ختم ہونے کے بعد پھر اس بات سے متعلق ہو گا کہ فلاں وقت سورج گرہن ہوا تھا۔ دیکھیے! مختلف کیفیتوں کے ساتھ علمِ الہی بھی تغیّر پذیر ہے۔ یعنی الله تعالیٰ کا علم بھی ایک علم نہیں رہتا، بلکہ متعدد شکلیں اختیار کر لیتا ہے۔ ایسا تعدد اور تغیرّ پذیر علم حدوث (فنا) کو مستلزم ہے، جو قدیم ( ہمیشہ رہنی والی ذات باری تعالی) کی صفت نہیں بن سکتی ۔ لہٰذا سلامتی کا راستہ یہی ہے کہ علم الہی کو جزئیات زمانی سے مستثنیٰ رکھا جائے۔

فلاسفہ کی دلیل مغالطے پر مبنی ہے
فلاسفہ کی یہ دلیل مغالطے پر مبنی ہے، کیوں کہ نظام ِ شمسی کے قائم ہونے کے بعد جب سورج گرہن ہوا ، یا اس کیفیت سے گزر کر اپنی سابقہ حالت پر لوٹ آیا، بہرصورت اس کے متعلق علم الہی درحقیقت وہی سابقہ علم ہی ہے جو ازل سے الله تعالیٰ کو حاصل ہے ۔ یہاں تغیّر علم میں نہیں، بلکہ معلومات میں ہے۔ (المسامرہ:68)

یہ بالکل ایسا ہے جیسے آئینے کے سامنے انسان گزر جائے تو انسان کی صورت منعکس ہو گی او راگر گھوڑا گزر جائے تو گھوڑے کی صورت منعکس ہو گی ۔ اس صورت میں تغیّر آئینے کے تعلق میں ہے، خود آئینے میں کوئی تغیّر واقع نہیں ہوا، نسبت واضافت کے تغیّر کو علم وذات کا تغیّر قرار دینا سراسر مغالطہ ہے۔

علاوہ ازیں فلاسفہ کا موقف خود انہیں کے اصولوں کی روشنی میں بھی درست نہیں ۔ کیوں کہ ان کے نزدیک تمام اجناس وانواع کا علم اسلوب کلی کی حیثیت سے الله تعالیٰ کو حاصلہے ، ظاہر ہے کہ تمام اجناس وانواع کا علم ایک دوسرے سے مختلف ہو گا ، کیوں کہ جو علم حیوانات کے متعلق ہے وہ جمادات کے متعلق نہیں ہو سکتا ۔ لہٰذا علم الہی میں تغیّر اور تعدد تو اسلوبِ کل کی صورت میں بھی لازم آرہا ہے۔ پھر جزئیات زمانیہ پر ہی اعتراض کیوں؟

علم بار ی تعالیٰ خالص عقیدے کا مسئلہ ہے، جسے وحی کی روشنی میں حل ہونا چاہیے کہ ”علم“ الله تعالیٰ کی ازلی اور ابدی صفت ہے او رکلیات وجزئیات سب کا احاطہ کیے ہوئے ہے ، فلاسفہ نے محض عقل کے بل بوتے پر جس رائے کا اظہار کیا ہے اس کی علمی سطح انتہائی کمزو رہے، جسے بقدر ضرورت یہاں ذکر کر دیا گیا ہے ۔ تاہم اہل علم اگر اس سطحی پن سے مزید واقف ہونا چاہیں تو کتاب الملل والنحل لشھرستانی، المسامرة اور تھافة الفلاسة کی طرف رجوع کریں، جہاں علامہ غزالی رحمہ الله نے فلاسفہ پر نقد واحتساب کادبستان سجا کر واضح کر دیا ہے کہ #
        فلسفہ چوں اکثرش باشد ”سفہ“ پس کل آں
        ہم ”سفہ“ باشد کہ حکمِ کل، حکم اکثر است

﴿ وَإِذْ قَالَ رَبُّکَ لِلْمَلاَئِکَةِ إِنِّیْ جَاعِلٌ فِیْ الأَرْضِ خَلِیْفَةً قَالُواْ أَتَجْعَلُ فِیْہَا مَن یُفْسِدُ فِیْہَا وَیَسْفِکُ الدِّمَاء وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِکَ وَنُقَدِّسُ لَکَ قَالَ إِنِّیْ أَعْلَمُ مَا لاَ تَعْلَمُون﴾․(سورہ بقرہ، آیت:30)
ترجمہ:” اور جب کہا تیرے رب نے فرشتوں کو کہ میں بنانے والا ہوں زمین میں ایک نائب، کہا فرشتوں نے کیا قائم کرتا ہے تو زمین میں اس کو جو فساد کرے اس میں اور خون بہائے اور ہم پڑھتے رہتے ہیں تیری خوبیاں اور یاد کرتے ہیں تیری پاک ذات کو؟ فرمایا بے شک مجھ کو معلوم ہے جو تم نہیں جانتے۔“

ربط آیت
گزشتہ آیت میں ظاہری او رحسی نعمتوں کا تذکرہ تھا، اس آیت میں الله تعالیٰ حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش اور خلافت کا ذکر فرماکر اپنی باطنی نعمتوں کااظہار فرمارہے ہیں۔

تفسیر
یہاں سے اس ماجرے کا تذکرہ ہو رہا ہے جو عالم غیب میں الله تعالیٰ اور فرشتوں کے درمیان ہوا تھا، جب الله تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق کا ارادہ فرما کر خلافت کے منصب سے سرفراز کرنا چاہا تو فرشتوں سے فرمایا:﴿انی جاعل فی الارض خلیفة ﴾( کہ میں زمین پر ایک خلیفہ پیدا کرنے والا ہوں)۔

تو فرشتے حیرت او رتعجب کا اظہار کرنے لگے، کیوں کہ وہ زمین پر پہلے سے موجود ایک مخلوق جنات کے حالات سے واقف تھے۔ جو ناری (آگ سے پیدا) ہونے کی وجہ سے شر وفسا د کا نمایاں عنصر لیے ہوئے تھے اور زمین میں قتل وخون ریزی کا بازار گرم کیے ہوئے تھے ۔ ان کے خیال میں یہ مخلوق بھی اسی طرح قتل وفساد کی خوگر ہو گی۔

علاوہ ازیں فرشتوں کو یہ معلوم ہوچکا تھا کہ جس نئی مخلوق کو زمین کی خلافت کا عظیم منصب سونپا جارہاہے اس کی فطرت متضاد قوتوں کا مجموعہ ہے۔
قوت شہوانیہ۔قوت غضبانیہ
یہ دونوں قوتیں شر وفساد کا سبب بنتی ہیں۔

قوت عقلیہ: یہ اطاعت تسبیح وتحمید کے داعیے ابھارتی ہے۔ فرشتوں نے پہلی دو قوتوں پر الگ الگ غور کرکے یہ نتیجہ نکالا کہ یہ مخلوق بھی جنات کی طرح فساد برپا کرے گی اور قوتِ عقلیہ کے جو تقاضے ہیں تسبیح وتحمید اطاعت الہی وغیرہ وہ سب ہم پورے کر رہے ہیں، پھر اس نئی مخلوق پیدا کرنے میں کیا حکمت ہے ؟ لیکن اس نکتہ پر غور نہیں کیا کہ جب قوتِ شہوانیہ اور غضبانیہ ، قوت عقلیہ کے تابع ہو جائیں تو کیا کمال پیدا ہوتا ہے ۔ اس لیے بارہ گاہ الہی میں عرض کیا:﴿اتجعل فیھا من یفسد فیھا ویسفک الدماء﴾ آپ ایسی مخلوق پیدا کر رہے ہیں جو زمین میں فساد اور خون ریزی کرے گی ؟(حاشیہ الشھاب البقرة، تحت آیہ رقم:30)

چوں کہ الله تعالیٰ کے علم میں تھا جب قوتِ شہوانیہ اور غضبانیہ قوت عقلی کے تابع ہو جائیں تو فتنہ اور ظلم کی سرکوبی پر قدرت حاصل ہوتی ہے، اس کے بل بوتے پر عادلانہ نظام کا قیام ممکن ہوتا ہے اور یہی متضاد صفات رکھنے والی مخلوق ہے جس میں انبیائے کرام، صدیقین، شہداء، صلحاء پیدا ہوں گے، اس لیے فرمایا: ﴿انی اعلم مالا تعلمون﴾․ ( تفسیر ابن کثیر، البقرہ، تحت آیہ رقم:30)

﴿وإذ قال ربک للملئکة﴾ قرآن کریم میں یہ پہلا مقام ہے کہ ملائکہ (فرشتوں) کا ذکر صریح الفاظ میں ہوا ہے ، چوں کہ بعض لوگوں نے ملائکہ ( فرشتوں) کے بارے میں عجیب وغریب رائے کا اظہار کیا ہے۔ اس لیے اس مقام پر قدرے تفصیل کے ساتھ ذکر کر دیا جاتا ہے کہ قرآن وسنت کی رو سے ملائکہ (فرشتوں) کی حقیقت کیا ہے؟ او ران کی صفات کیا ہیں؟

ملائکة
”ملٰئکة“ جمع ہے، اس کا واحد ”ملک“ ہے ،مأخذ اشتاق ”ألوکة“ ہے ۔ جس کا معنی ہے پیغام رسانی ، چوں کہ فرشتے الله تعالیٰ کا پیغام اس کے مقبول بندے تک پہنچاتے ہیں، اس لیے انہیں”ملائکة“ کے نام سے منسوب کیا گیا ہے ۔ (مفردات القرآن للراغب، ص:28)

ملائکہ کی حقیقت
ملائکة (فرشتے) الله تعالیٰ کی ایک لطیف اور نورانی مخلوق ہے، بذاتِ خود مستقل ایک وجود رکھتی ہے، کسی کی صفت نہیں، مختلف شکلوں میں ظاہر ہو سکتی ہے۔ زور آوری اور طاقت کے بل بوتے پر بڑے بڑے امور انجام دے سکتی ہے ، اطاعتِ الہی ان کی فطرت ہے، گناہوں سے معصوم او رغلطی ونسیان سے محفوظ ہے ، کھانے پینے، تذکیر وتانیث، تو الدوتناسل سے پاک ہے ان کی تعداد الله کے علاوہ کوئی نہیں جانتا : ﴿ومایعلم جنود ربک إلاھو﴾ انبیائے کرام کے علاوہ دیگر لوگ بھی اس مخلوق کو مختلف شکلوں میں دیکھ چکے ہیں، ان کے وجود کا انکار کرنا یا دور ازکار رکیک تاویلیں کرنا الحاد وزندقہ ہے۔

ملائکہ کا ثبوت
ملائکہ کے ثبوت پر واضح دلیل یہ ہے کہ انبیائے کرام علیہم الصلاة والسلام نے انہیں بچشم خود دیکھا ہے، چناں چہ قرآن کریم میں حضور صلی الله علیہ وسلم کی بابت ذکر ہے ۔﴿ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوَی ، وَہُوَ بِالْأُفُقِ الْأَعْلَی ،ثُمَّ دَنَا فَتَدَلَّی ، فَکَانَ قَابَ قَوْسَیْْنِ أَوْ أَدْنَی﴾․ (سورہ نجم، آیت:9-5)
ترجمہ: ”اس کو سکھلایا ہے سخت قوتوں والے نے، زور آور نے، پھر سیدھا بیٹھا اور وہ تھا اونچے کنارہ پر آسمان کے ، پھر نزدیک ہوا اور لٹک آیا، پھر رہ گیا فرق دو کمان کی برابر یا اس سے بھی نزدیک۔“

یعنی وحی بھیجنے والا تو اصل میں الله تعالیٰ ہے، لیکن جس کے ذریعے وحی آپ تک پہنچتی ہے اور جوبظاہر آپ کو سکھلاتا ہے وہ بہت سخت قوتوں والا اور زور آور وجیہ فرشتہ ہے، جسے جبرائیل امین کہتے ہیں، جو اپنی اصلی اور حقیقی صورت میں افق آسمانی پر سیدھے کھڑے ہوئے نمودار ہوئے۔ حضور صلی الله علیہ وسلم نے جب ان کو دیکھا تو بے ہوش ہو گئے، جبرائیل علیہ السلام انسانی شکل میں آگے بڑھے اور آپ صلی الله علیہ وسلم سے اس قدر نزدیک ہو گئے کہ دونوں کے درمیان دو کمانوں سے زیادہ فاصلہ نہ تھا۔ ( تفسیر ابن کثیر ، النجم، تحت آیہ رقم:6-5)

چوں کہ الله تعالیٰ کے علم میں تھا کہ کچھ لوگ ملائکہ کے بارے میں تاویل وتکذیب سے کام لیں گے، اس لیے ان کو خاموش کرانے کے لیے یہ بھی ساتھ فرما دیا: ﴿مازاغ البصر وماطغیٰ ﴾کہ یہ دیکھنا وہم وخیال کا نتیجہ نہیں، جسے نظر کا قصور سمجھ کر نظر انداز کر دیا جائے۔

ان آیات سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ملائکہ مستقل بالذات ایک مخلوق کا نام ہے ، انسان کی ملکوتی صفات کو ملائکہ سے تعبیر نہیں کیا جاسکتا، کیوں کہ صفت کبھی اپنے موصوف سے جدا نہیں ہو سکتی اور نہ ہی کوئی شکل اختیار کرکے موصوف کے لیے معلم بن سکتی ہے ۔

اسی طرح قرآن کریم میں مختلف مقامات پر ان فرشتوں کا تذکرہ ہے جنہوں نے انسانی صورت میں حضرت ابراہیم علیہ السلام: ﴿ہَلْ أَتَاکَ حَدِیْثُ ضَیْْفِ إِبْرَاہِیْمَ الْمُکْرَمِیْن…﴾․ (الذاریات:28-24)

حضرت لوط علیہ السلام:﴿وَلَمَّا جَاء تْ رُسُلُنَا لُوطاً سِیْء َ بِہِمْ وَضَاقَ بِہِمْ ذَرْعاً وَقَالَ ہَذَا یَوْمٌ عَصِیْبٌ﴾․(سورہ ھود، آیت:77)

حضرت داؤد علیہ السلام:﴿وھل أتٰک نبؤ الخصم إذ تسوروا المحراب﴾․ (ص:22-21) سے شرفِ ملاقات حاصل کی۔

انبیا کے علاوہ دیگر لوگوں سے بھی فرشتوں کی ملاقات کا ذکر آیا ہے ۔ ان میں سرِ فہرست حضرت مریم علیہا السلام ہیں۔ قرآن کریم میں ہے کہ جب انسانی صورت میں ایک فرشتہ ان کے پاس پہنچا تو آپ فرمانے لگیں میں تیری طرف سے رحمان کی پناہ میں آتی ہوں اگر تیرے دل میں خدا کا ڈر ہو گا:﴿فَأَرْسَلْنَا إِلَیْْہَا رُوحَنَا فَتَمَثَّلَ لَہَا بَشَراً سَوِیّاً، قَالَتْ إِنِّیْ أَعُوذُ بِالرَّحْمَن مِنکَ إِن کُنتَ تَقِیّا﴾․ (سورہ مریم، آیت:18,17)

بخاری شریف کتاب الایمان میں ایک معروف حدیث ہے، جسے علماء ”حدیث جبرائیل علیہ السلام“ کے نام سے یاد کرتے ہیں ۔ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ایک اجنبی شخص آپ صلی الله علیہ وسلم کی مجلس میں آیا اور دین اسلام کے متعلق کچھ سوال وجواب کیے اور چلا گیا ، اس کے جانے کے بعد آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا یہ جبرائیل تھے، جو تمہیں دین سکھلانے کی غرض سے تشریف لائے تھے۔(صحیح البخاری، کتاب الإیمان، رقم الحدیث:37)

اس مجلس میں موجود تمام صحابہ کرام رضی الله عنہم نے حضرت جبرائیل علیہ السلام کو انسانی شکل میں دیکھا ہے ،اس قدر واضح دلائل کے بعد بھی اب کوئی یہ دعوی کرے کہ ملائکہ الله تعالیٰ کی بعض صفات کا نام ہے یا انسان کی ملکوتی صفت ہے، تو یہ ضد اور ہٹ دھرمی ہے، جس کا کوئی علاج نہیں۔ (جاری)
Flag Counter