قدیم قرآنی مصاحف ، اور ملتِ اسلامیہ کی قرآنی خدمات کا تعارف
مولانا محمد بلال بربری
پانچ سال کی مدت تک نسخ مصاحف کمیٹی کاکام جاری رہااور تحقیق کے مطابق یہ زمانہ سن پچیس ہجری سے سن تیس ہجری تک کا ہے۔اس کے بعد تحریر شدہ مصاحف کی نقول مختلف علاقوں کو روانہ کر دی گئیں۔حضرت عثمان نے مکہ ، بصرہ ، شام اور کوفہ روانہ کرنے کے بعدان میں سے ایک مصحف اہل مدینہ کے لیے اور ایک مصحف خود اپنے لیے رکھ لیا۔یہ مصاحف ان مشہور اور معروف قراء کی زیر نگرانی تیار ہوئے تھے، جن کی شہرت قرآن سنانے اور دور کرنے کروانے میں عام تھی۔امت نے حضرت عثمان کے اس کارنامے پر ان کا تہہ دل سے شکر ادا کیا، جن میں سر فہرست حضرت علی تھے، جو فرمایا کرتے تھے ، ”اگر مجھے ولایت وخلافت کے امور سونپے جاتے تو میں بھی مصاحف کے سلسلے میں وہی کچھ کرتا جو حضرت عثمان نے فرمایا“۔ ابو عبید نے”فضائل القرآن“ میں حضرت علی کا یہ مقولہ نقل فرمایا ہے، اور اس کی سند یوں بیان فرمائی ہے:”عن عبد الرحمٰن بن مھدی عن شعبة عن علقمة بن مرثد عن سوید بن غفلة عن علی کرم اللّٰہ وجہہ “․ (یعنی عبد الرحمن بن مھدی نے شعبہ سے ، شعبہ نے علقمہ بن مرثد سے ،علقمہ نے سوید بن غفلہ سے ، اور سوید نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے نقل فرمایا… الخ)
آپ صلی الله علیہ وسلم کی طرف سے سب سے آخرمیں پیش کردہ قرآن کریم میں موجود قراء ات یہ قرآن کریم کی بعض قراء ات ہیں۔ان میں سے جن جن قراء ات کااس مصحف میں باعتبار رسم الخط کے جمع کرنا ممکن ہوا، انہوں نے ان لکھے ہوئے مصاحف کے رسم الخط میں جمع کر دیں، اس لیے کہ اس وقت تک صحابہ کرام کے درمیان رائج رسم الخط میں نقطوں اور اعراب کا کوئی نشان نہیں ہوا کرتا تھا،بلکہ وہ حضرات الفاظ کے درمیان آنے والے الفوں کی کتابت سے بھی مستغنی تھے۔یہی وجہ ہے کہ ایک ہی رسم الخط میں ان کے لیے ”فتبینوا“ اور ”فتثبتوا“، ”ینشرکم“ اور ”یسیرکم“وغیرہ کئی ایک متواتر قراء ات کوبیک وقت جمع کرنا ممکن تھا۔ وہ قراء ات جن کاایک ہی خط میں جمع کرنا ممکن نہ ہوتا تھا ، اس کو انہوں نے مختلف مصاحف میں تقسیم کردیا تھا۔
ان مصاحف میں موجود رسم الخط کی مکمل تفصیلی کیفیت اس وقت سے آج تک اس سلسلے کی مختص کتب میں مل جاتی ہے۔ اس موضوع سے متعلق جس کتاب کا حصول آسان ہے، وہ دانی کی ”المقنع“ اور ”المحکم “ ہے، انہوں نے ان دونوں کتب میں متقدمین کی رسم الخط میں تالیف کردہ کتب کی تلخیص کی ہے۔ اسی طرح سینکڑوں قراء اسی زمانے سے ہمارے آج کے زمانے تک ہر طبقے میں موجود رہے ہیں، جو ان کلمات کے املاء کی کیفیات سے واقف ہیں۔خود ہی دیکھ لیجیے کہ قراء کے تمام طبقات کے چنیدہ اشخاص کی قرآنی رسم الخط کے متعلق تالیف کردہ کتب کثرت کے ساتھ ہمارے سامنے موجود ہیں۔
انہی مصاحف میں کوفہ کا مصحف، سجقلی کے بیان کے مطابق وہی مصحف ہے جو طرسوس (جو کہ جزیرہ ٴ ارواد کے سامنے اور شام کے علاقے طرابلس کے قریب واقع ہے)میں امام سخاوی کے عہد تک محفوظ رہا،اس کے بعد قلعہٴ حمص منتقل ہو گیا۔ نابلسی اپنے طویل سفرنامے میں سن گیارہ سو صدی ہجری میں لکھتے ہیں کہ یہ مصحف وہاں پر عمومی جنگ تک محفوظ رہا، اس کے بعد اس کی حفاظت پر مامور لوگوں نے اس مصحف کو دار الخلافہ قسطنطنیہ منتقل کردیا۔
اسی طرح مدینہ منورہ کا مصحف بھی صدیوں سے روضہ مبارکہ میں محفوظ چلا آرہاتھا، عمومی جنگ کے دورانیہ میں دار الخلافہ منتقل کردیا گیا۔جنگ کے اختتام پر شاید یہ مصحف دوبارہ مدینہ منورہ منتقل کردیا گیا ہے۔شام کا مصحف وہی تھا جو ایک عرصے تک طبریہ میں رہا اور اس کے بعد دمشق منتقل ہو گیا۔ ابن جزری کے عہد تک یہ مصحف مسجد توبہ میں محفوظ رہا۔ اس کے بعد عمومی جنگ سے پیشتر جامع اموی میں حجرة الخطیب میں محفوظ رہا۔ ازاں بعد عمومی جنگ کے دوران یہ مصحف بھی دار الخلافہ منتقل کردیا گیا۔
ہمارے زمانے کی مشہور صاحب علم شخصیت شیخ عبد الحکیم افغانی کو وفات سے کچھ سال قبل، جب کہ عمومی جنگ برپا نہیں ہوئی تھی، یہ خیال الہام ہوا تھا کہ قرآن کریم کی ایک نقل دمشق کے مصحف سے اسی کے رسم الخط کے موافق تیار کرلی جائے۔شاید کہ ان کو یہ محسوس ہوگیا تھا کہ شام میں موجود یہ مصحف منتقل ہونے والا ہے،چناں چہ خود انہوں نے یہ مصحف اپنے مبارک ہاتھوں سے مکمل نقل کر لیا تھا۔آج تک یہ مصحف شیخ عبد الحکیم کے بعض تلامذہ کے ہاں محفوظ ہے۔شیخ عبد الغنی نابلسی کی کتاب ”الحقیقة والمجاز فی رحلة الشام ومصر والحجاز “ میں حمص اور مصر میں موجودان قدیم مصاحف کا تعارف موجود ہے، جو خود شیخ نابلسی نے وہاں ملاحظہ فرمائے تھے۔”منادمة الأطلال “ میں شامی مصاحف کے متعلق اخیر عہد کے کچھ حالات بھی ذکر کیے گئے ہیں۔
حضرت عثمان کا مصحفِ خاص جو کہ ابو عبید کو کسی خزانے سے دست یاب ہوا تھا ، جیساکہ کتاب ”عقیلہ“اور اس کی شروح میں موجو د ہے۔ عین ممکن ہے کہ یہ وہی مصحف ہو جس کا ذکر مقریزی نے ”خطط“میں جامع عمرو میں موجود حضرت اسماء کے مصحف کے بارے میں بحث کرتے ہوئے فرمایا ہے۔حضرت اسماء کا یہ مصحف وہی ہے جس میں غلطی کی نشان دہی کرنے والے کے لیے عبد العزیز بن مروان نے انعام کا اعلان کیا تھا،چناں چہ ایک کوفی قاری نے بجائے لفظ ”نعجة“کے، ”نجعة“ ہونے کی نشان دہی کرنے پر انعام بھی حاصل کیا تھا۔بعد میں یہ مصحف مآثر نبویہ کی منتقلی سمیت قاہرہ کے قبہٴ غوری میں منتقل کردیا گیا تھا۔اس کے بعد انہیں آثار کے ساتھ مشہد حسینی منتقل کردیا گیا۔علامہ شیخ بخیت نے ”الکلمات الحسان “ میں اس کی صفات بیان کی ہیں۔
کئی دھوکے باز لوگوں نے بعض قدیم مصاحف کو خون سے آلودہ کر کے لوگوں کو یہ دھوکہ دینے کی کوشش بھی کی ہے کہ یہ مصحف حضرت عثمان کا ہے اور یہ خون انہی کا ہے، جوشہادت کے وقت ان کے جسم سے نکل کر مصحف پر گراتھا۔کئی ایک ایسے ہی خون آلود مصاحف کتب کے عجائب گھروں میں رکھے ہوئے ہیں، اللہ ان بدبختوں سے انتقام لے گا۔ ان شاء اللہ!
ملک ظاہر بیبرس نے منگول حکم ران (جس کا شمالی علاقہ جات ”وولجا“ اور اس سے ملحقہ علاقوں پر تسلط تھا)کو جو اسلام قبول کرنے کی کام یاب دعوت دینے کی غرض سے مصحف روانہ کیا تھا ، باوجود یہ کہ مشہور یہی ہے کہ وہ مصحف عثمانی تھا، تاہم وہ درحقیقت مصحف عثمانی نہیں تھا ، اس لیے کہ اس کا رسم الخط بعض مقامات پر مصحف عثمانی کے رسم الخط سے مختلف تھا، جیساکہ علامہ شہاب جرجانی نے ”وفیات الأسلاف وتحیات الأخلاف“ میں اس مصحف کے رسم الخط اور مصحف عثمانی کے رسم الخط کا متعلقہ کتب مثلاً ”الرائیة“ وغیرہ کی روشنی میں تقابل کر کے تحقیق ذکر کی ہے۔البتہ یہ بات درست ہے کہ وہ انتہائی قدیم مصحف تھا ،جو عہد صحابہ کا لکھا ہوا تھا۔بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ظاہر بیبرس کا بھیجا ہوا یہ مصحف وہی ہے، جو منگول کی حکومت کے شمالی علاقہ جات سے ختم ہونے اور روس کے سمرقند پر تسلط حاصل کرلینے کے وقت سمرقند کی جامع مسجد عبید اللہ احرار سمرقندی میں محفوظ تھا۔اس مصحف کو انہوں نے صدی کے اختتام پرقیصر روس کے کتب خانے میں منتقل کردیا تھا اور ان کی حکومت کے اختتام پذیر ہونے تک یہ مصحف وہیں محفوظ رہا۔کہا جاتا ہے کہ ان کی سلطنت کے اختتام پذیر ہونے کے بعد تقریباً پندرہ سال کے اندر اندر دوبارہ جامع مسجد سمرقند میں رکھوادیا گیا تھا، لیکن ناسمجھ مسلمانوں نے وہاں سے اس کے اوراق تبرک کے نام پر چوری چھپے لے جانے شروع کر دیے ، جس کی وجہ سے یہ عظیم القدر قدیم مصحف ضائع ہوگیا۔ خیر! اللہ تعالیٰ کے مخلوقات کے بارے میں معاملات باری تعالیٰ کی حکمت کے مطابق ہی ہوا کرتے ہیں۔
بعض قدردانوں کو اس مصحف کے بقیہ اجزا کی فوٹو لینے کا موقعہ مل گیا ( چناں چہ انہوں نے اس کی فوٹو نکال کر محفوظ کرلی)۔ ان مصاحف کی اپنی تاریخی اہمیت بہت زیادہ ہے، اگرچہ رسم الخط کی معرفت کے لیے ان کی کوئی خاص ضرورت نہیں ہے ، اس لیے کہ جیساہم نے ذکر کیا کہ ہر زمانے میں اس کی تدوین ہوتی رہی ہے۔قراء صحابہ کرام کی کوششیں ،جو دور دراز علاقوں میں قرآن کریم حفظ کروانے اور سکھلانے کے لیے بھیجے گئے تھے ، قابل صد تقدیر ہیں اور انتہائی شکریے کی مستحق ہیں۔ صحابہ کرام کے حالات ، ممالک کی تاریخ اور مختلف علاقوں کے قرائے کرام کی سوانحات اور سرگزشت حیات میں تحریر کردہ کتب ان کی قابل تعریف کوششوں کے بیان سے بھرپور ہیں۔ہماری اس بات کے شواہد آپ کو ابو زرعہدمشقی کی” تاریخ دمشق“، ابن ضریس کی ”فضائل القرآن“ ، ابن عساکر کی ”تاریخ دمشق“ اور ذہبی کی ”طبقات القراء “ وغیرہ جملہ متداول کتب میں مل سکتے ہیں۔
مفتوحہ علاقوں کی وسعت اور کثرت، نیز تمام ممالک اسلامیہ کے لوگوں کی قرآن کریم کی تعلیم و تعلم پر خصوصی توجہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ صحابہ کرام کے عہد میں بھی موجود مصاحف کی تعداد لاکھ سے کم ہرگز نہیں ہوگی، بلکہ حضرت عمر فاروق نے تو ان طلبا کے لیے، جو قرآن کریم یاد کرتے تھے، باقاعدہ بیت المال سے وظائف کا اجرا فرما رکھا تھا ۔تاہم جب انہیں یہ خوف لاحق ہوا کہ لوگ صرف قرآن کریم کے حفظ میں مشغول ہوجائیں گے اور اس کے سمجھنے اور تفقہ حاصل کرنے کو چھوڑ بیٹھیں گے تب آپ نے یہ سلسلہ بند فرمایا۔جو حضرات صحابہ کرام قرآن کریم حفظ کروانے کے ساتھ ساتھ قرآن کریم کی روشنی میں فقہ و مسائل بھی سکھلاتے تھے ، ا ن میں حضرت ابن مسعود اور حضرت ابن عباس بھی شامل ہیں ۔
کوفہ میں جنہوں ابن مسعود سے قرآن کریم اور فقہ ومسائل کے علوم بیک وقت حاصل کیے، ان کی تعداد بے شمار ہے۔اسی سے اندازہ کر لیجیے کہ عبد الرحمن بن اشعث کی معیت میں بنو امیہ کی مخالفت میں اٹھنے والی جماعت میں صرف قراء کی تعداد چار ہزار تھی اور وہ تابعین حضرت ابن مسعود کے شاگردیا ان کے شاگردوں کے شاگرد تھے۔ابو موسیٰ اشعری اپنے شاگردوں کو مختلف حلقوں میں تقسیم فرمادیا کرتے تھے اور ہر حلقے کے لیے ایک نگران مقرر کرتے تھے، پھر بصرہ کی جامع مسجد میں خود روزانہ ان تمام حلقوں کی سورج کے طلوع ہونے سے ظہر کے وقت تک نگرانی فرمایا کرتے تھے۔حضرت ابو درداء کا بھی ملک شام میں وفات پاجانے تک دمشق کی جامع مسجد میں روزانہ کا یہی معمول تھا ۔اس مختصر سے مضمون میں ان حضرات کے قرآن حفظ کروانے اور فقہ ومسائل کا علم سکھلانے کے قابل تعریف کارنامے کی تفصیلات بیان نہیں کی جاسکتی ہیں۔
قرآن کریم اور مختلف قراء ات سکھلانے میں ان کا یہی اہتمام ہمیشہ باقی رہا۔ یہ قراء ات وہی متواتر قراء ات ہیں، جن کا تواتر ہر طبقے میں اس طرح رہا ہے کہ اس سے مزید کسی تواتر کے پائے جانے کا تصور نہیں ہو سکتا، البتہ وہ چیدہ چیدہ قراء ات جو نبی کریم ایا بعض صحابہ کرام یا تابعین کی طرف منسوب ذکر کی جاتی ہیں، وہ درحقیقت قرآن کریم کا حصہ ہی نہیں ہیں۔یہ قرء ات یا تو قرآن کریم کی تعلیم کے دوران ان کی طرف سے بیان کی جانے والی تفاسیر ہیں، جنہیں ازاں بعد باقاعدہ قراء ات خیال کر کے شامل کردیا گیا، یا پھر یہ کسی پڑھنے والے سے کوئی غلطی ہوئی ہے جس کو سننے والے نے قرء ات سمجھ لیا۔یہی وجہ تھی جس کی بنا پر امام نافع نے (جو قاری تھے) جب امام مالک سے امامت کا منصب اختیار کرنے کے متعلق مشورہ کیا تو امام مالک نے انہیں یہ کہتے ہوئے منع فرمایا کہ :”تم قراء ات کے ماہر ہو، اگر کبھی نماز میں تمہیں قراء ات میں سہو ہو گیا تو عین ممکن ہے کہ کوئی شخص اس سہو کو بھی قرء ات سمجھ لے اور پھر یہ سہو تمہاری طرف منسوب ہوکر بطور قرء ات منقول ہونا شروع ہو جائے“۔
ان شاذ قراء ات کو بھی علماء کرام نے مستقل کتابوں میں جمع کردیا ہے، ان میں سے بعض تو تفاسیر ہی معلوم ہوتی ہیں اور بعض خالص غلطی کی بنا پر باقاعدہ قراء ات سمجھ لی گئی ہیں۔ بعض ایسی قراء ات بھی پائی جاتی ہیں جو سراسر جھوٹی سندوں سے مروی ہیں، انہیں تو کسی صورت قراء ات میں شمار کیا جانا ہی درست نہیں۔ان میں امتیاز اور فرق کرنا انہی فن قراء ات میں اختصاص یافتہ علماء کا کام ہے، جو دلائل کی روشنی میں ان کے کھرے کو کھوٹے سے الگ کردیتے ہیں۔ابو عبید ”فضائل القرآن “میں ،عہد عثمانی میں صحابہ کرام کے زیر نگرانی تدوین ہونے والے مصحف کے بیان کے ضمن میں تحریر کرتے ہیں:
”یہ وہی مصحف تھا جس کے کسی ایک حرف کے منکر پر مرتد کا حکم لاگو ہوگا، چناں چہ اس کے کسی حصے کے منکر کو توبہ کرنے کی دعوت دی جائے گی اور اگر وہ باز نہ آئے تو اس کو قتل کر دیا جائے گا“۔
اس کے بعد ان شاذ قراء ات اور الفاظ کے متعلق جو تواتر کے ساتھ نقل نہیں ہوئی ہیں، حکم بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
”یہ اور اسی قسم کے کئی اور الفاظ قرآن کریم کی تفسیر کرتے ہیں۔بعض تابعین سے بھی اسی قسم کے کلمات تفسیر کے بیان میں منقول ہوئے ہیں اور ان تفاسیر کی تعریف اور تحسین بھی کی گئی ہے۔ جب تابعین کی بیان کردہ ان تفاسیر کی تحسین کی گئی ہے تو کبار صحابہ کرام سے منقول اسی قسم کے تفسیری کلمات ، جو بعد ازاں قراء ات ہی شمار کی جانے لگیں، کی تحسین میں کیسے شک ہو سکتا ہے؟ بلکہ یہ تفاسیر کے باب میں سب سے قوی ترین تفاسیر شمار ہوں گی۔ان قراآت کی واقفیت حاصل کرنے کا سب سے کم تر فائدہ یہ ہے کہ ان کے ذریعے کسی اور تفسیر کی درستگی اور صحت معلوم ہو جاتی ہے۔البتہ اس علم کی قدر صرف اہل فضل و علم جان سکتے ہیں، عوام کو اس کی افادیت کا علم نہیں ہو سکتا ہے“۔
اس سے یہ خوب واضح ہوگیا کہ ابن مسعود اور ابی بن کعب اور ابن عباس وغیرہ حضرات سے جو اس طرح کے کلمات اور الفاظ منقول ہیں جو متواتر قراء ات کے مخالف ہیں ، ان کی حیثیت بھی تفاسیر ہی کی ہے، جیسا کہ ابو عبید کے مذکورہ بالا بیان سے معلوم ہوا۔
ابن مسعود کی قراء ات بھی ان کے کوفی شاگردوں نے متواتر طور پر نقل کی ہیں۔ عاصم نے زر بن حبیش سے اور زر نے حضرت ابن مسعود سے یہ قرء ات نقل فرمائی ہیں۔یہی وہ قراء ات ہیں جو ابو بکر بن عیاش نے حضرت عاصم سے روایت کی ہیں۔ان قراء ات کا تواتر بالکل غیر متنازع ہے اور ان قراء ات میں کسی قسم کے شاذ کلمات بھی نہیں ہیں۔جو شخص یہ گمان کرتا ہے کہ حضرت ابن مسعود کے مصحف میں سورہٴ فاتحہ یا معوذتین نہیں تھے، یا وہ ان کو اپنے مصحف سے مٹایا کرتے تھے ، وہ یا تو جھوٹا ہے ، یا بغیر ارادے کے وہم میں مبتلا ہو گیا ہے۔ابن مسعود کے شاگردوں کے ذریعے ان سے مروی متواتر قراء ات میں معوذتین اور فاتحہ دونوں موجود ہیں۔ان کی قراء ات وہی ہیں جو عاصم سے منقول ہیں اور جس کو ہر زمانے اور ہر وقت میں دنیا کے گوشے گوشے میں مسلمان عرصہ دراز سے سنتے آرہے ہیں۔ان روایات متواترہ کا اخبار آحاد کس طرح مقابلہ کر سکتی ہیں؟مزید یہ کہ عام طور پر سورہ ٴ فاتحہ اور معوذتین نماز اور دم وغیرہ کے لیے ان کے زمانے میں بھی لوگوں کوازبر ہوتی ہوں گی ، جس کی بنا پر ممکن ہے کہ ان کے کبھی نہ بھولنے کے خوف سے انہوں نے اس کی کتابت مصحف میں نہ کی ہو۔یہ بھی ممکن ہے کہ صرف معوذتین کا نام مٹادیا گیا ہو، سورتیں اپنے حال پر موجود ہوں، جیسا کہ ان کا عام طریقہ یہی تھا کہ وہ سورتوں کے نام ، ان کی آیات اور عشرات کی تعدادوغیرہ جو جو زوائد قرآن کریم کے نزول کے وقت نازل نہیں ہوئے تھے، قرآن کریم کو ان سے خالی کر دینے کی رائے رکھتے تھے۔ابن حزم نے اپنی کئی تالیفات میں حضرت ابن مسعودکے مصحف کے بارے میں بے ہودہ باتیں کرنے والوں کوخوب اچھی طرح جواب دیا ہے۔
امت مسلمہ کی طرف سے قرآن کریم یاد کرنے اور سینوں میں محفوظ کر لینے کی ہمیشہ کی روایت جو اس کے زمانہٴ نزول سے تاحال جاری ہے اور قیامت تک جاری رہے گی، وہ خود کسی لفظ میں کسی وہم کرنے والے کے وہم یا غلطی کرنے والے کی غلطی کو درست کرنے کے لیے کافی ہے۔یہ فطری امر ہے کہ تمام انسان حفظ میں ، علم میں ، اور فہم میں یکساں نہیں ہوا کرتے ، البتہ توہمات اور غلطیاں جمہور کے ہر زمانے میں حفظ اور ان کے ضبط کے سامنے ٹھہر نہیں سکتی ہیں۔ اہل علم نے قراء ات کے سلسلے میں منقول الفاظ اور کلمات کی روشنی میں ان آیات اور کلمات کو جو بطور تفسیر بیان کیے گئے تھے، یا بطورغلطی کے قراء ات شمار کیے گئے تھے یا کسی ناسمجھ راوی کی طرف قراء ات گردان لینے، یا محض جھوٹی روایت، سب کو الگ الگ کردیا ہے اورہر ایک کا الگ الگ حکم بیان فرمایا ہے۔
اب سے کچھ عرصہ قبل ہم دیکھ رہے ہیں کہ مغرب کے مستشرقین قرآن کریم سے متعلقہ جملہ علوم وفنون مثلاً قراء ات، رسم قرآنی، شاذقرء ات ، قراء کے طبقات،وغیرہ موضوعات پر متقدمین کی تصنیف کردہ کتب کی نشرواشاعت میں خاصی دلچسپی لے رہے ہیں،بلکہ اس سے بڑھ کر علم حدیث ، علم فقہ اور علم لغت وغیرہ دیگر مشرقی علوم میں تصنیف کردہ متقدمین کی کتب کی بھی نشرواشاعت میں مصروف ہیں۔ان مستشرقین میں سے اکثریت کی کوششیں خود ان کے اس دلچسپی کے پس پردہ خطرناک مقصد کی نشان دہی کرتی ہیں۔یہ پس پردہ مقصد درحقیقت یہ ہے کہ قرآن کریم کی تعلیمات کے پھیلائے ہوئے اس نور پر فکری اور نظریاتی حملے کیے جائیں، جس نے تاریکی میں ڈوبے ہوئے کرہٴ ارضی کو روشن اور لوگوں کی بصیرتوں کو صیقل کیاتھا۔یہ اعتراضات اسلام سے متعلق ان مستشرقین کے بے جا تعصب اور جہالت کے بھرپور عکاس ہیں۔یہ اسلام کا نور ہی تھا ، جس سے بصیرتوں کے پاک ہوجانے کے بعد لوگ جوق در جوق اسلام میں داخل ہوئے تھے اور یہ زمین وہ زمین نہ رہی تھی جو کسی زمانے میں تھی۔مستشرقین چاہے اپنی کوششوں کو جھوٹ، دھوکے بازی اور جعل سازی کے ذریعے آزادانہ علمی تحقیقات باور کرواتے رہتے ہیں، تاہم ان کے خفیہ مقاصد بالکل ظاہر ہیں۔
قرآن کریم کی حفاظت کی بیان کردہ مختصر تاریخ کی روشنی میں ہی ظاہر ہوجاتا ہے کہ ان مستشرقین کی یہ کوشش ناکام اور نامراد ہی ہوگی ۔ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم پر نازل شدہ اس بے مثل قرآن کریم سے ادنی مشابہت رکھنے والا کلام پیش کرنے کی غرض سے، خواہ یہ مستشرقین آسمان کی طرف زینہ لگالیں یا زمین میں سرنگ کھود ڈالیں ، دور اور قریب ہر جگہ جا پہنچیں، تب بھی اس کی طرف ہرگز راہ یاب نہیں ہو سکتے ۔
اگر جامعہ ازہر کی متعلقہ انتظامیہ متقدمین کی تالیف کردہ کتب کی پہلی بار یا مطبوعہ ایڈیشن کی دوبارہ اشاعت کی طرف تھوڑی سی توجہ کرلے،اس کے ساتھ ساتھ جہاں حواشی کی ضرورت محسوس ہو، وہاں حواشی کا اضافہ کردے،تو ان دھوکے باز لوگوں کی شر انگیزی کا سدِّ باب ممکن ہو سکے گا اور اللہ تعالیٰ کی مدد سے یہ کام کچھ مشکل نہیں ہے۔