Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق ربیع الثانی 1434ھ

ہ رسالہ

6 - 18
اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہوکر
بیان :شیخ الحدیث حضرت مولانا سلیم اللہ خان زید مجدھم
ضبط و تحریرمتعلم:محترم اِبن انیس
قرآن کریم اللہ تبارک وتعالیٰ کا کلام ہے۔زمین کے اندر انبیاء اور رسل بھی ہوئے ہیں، زمین کے اندر صدیقین اور شہداء بھی موجود رہے ہیں، زمین میں خانہ کعبہ بھی ہے اور زمین کے اندر بے شمار مساجد بھی ہیں۔لیکن سب مخلوق ہیں ، انبیاء بھی مخلوق ہیں، کعبہ بھی مخلوق ہے اور شہداء ،صلحاء ،صدیقین یہ سب مخلوق ہیں۔آسمان کے اندر ملائکہ ہیں ،جنت ہے،اس کی نعمتیں ہیں،عرش ہے،کرسی ہے ،لوح وقلم ہیں ،یہ سب مخلوق ہیں، لیکن قرآن مخلوق نہیں ہے، قرآن کریم اللہ کی صفت ہے اور اس کی ذات کے ساتھ قائم ہے اور اس کے مقام اور مرتبہ کا یہ عالم ہے کہ قرآن نے اعلان کیا ہے:﴿لئن اجتمعت الاِنس والجن علیٰ أن یأتوا بمثل ھذا القرآن لایأتون بمثلہ ولوکان بعضھم لبعض ظھیراً“قرآن کا مثل پیش کرنے سے انسان ،جنات سب عاجز ہیں۔اس کے بعد فرمایا :﴿فأتوا بسورة من مثلہ﴾ کہ پورا قرآن نہیں، صرف چند سورتیں بنا لاؤ ؛وہ بھی نہیں بنا سکتے اس کے بعد فرمایا کہ دس سورتیں نہیں، ایک سورت بنا لاؤ ۔وہ ایک سورت بھی نہیں بنا سکتے۔ ایک آیت اگر قرآن کریم کی آیت کے برابر اور اس کی مثل کو بنانا چاہے اور پورے انسان اور جن اس کے لیے کوشش کریں تو ناکام ہیں۔ یہ قرآن کی عظمت کی واضح اور روشن دلیل ہے۔ اس کے بعد نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اس کتاب کی بدولت ایک قوم کو عروج ،ترقی اور عظمت عطا کرتے ہیں جو اس کے مطابق عمل کرتی ہے اور دوسری قوم کو، جو اس کے مطابق عمل نہیں کرتی ،اللہ اس کو ذلیل اور رسوا کرتا ہے #
        وہ معزز تھے زمانے میں مسلماں ہوکر
        اور تم خوار ہوئے تارک قرآں ہوکر

پہلے زمانے میں لوگوں نے قرآن کریم کو لیا،اس پر عمل کیا،اس کی عظمت کا،اس کے تقدس کا پورا پورا خیال کیا تو ان کو اقوام عالم میں ترقی نصیب ہوئی اور آج لوگ قرآن کو چھوڑ بیٹھے ہیں تو اس کا نتیجہ یہ ہے کہ وہ پوری دنیا کے اند رخوار ،پوری دنیا کے اندر ذلیل اور پوری دنیا کے اندرر سوا ہیں۔

میرے بھائیو اور دوستو! بات تو میری تلخ ہوگی، لیکن میں اس کے لیے مجبور ہوں ،نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا تھا کہ اسلام کا نام رہ جائے گا،قرآن کی رسم رہ جائے گی،مسجدیں بڑی شان دار ہوں گی، لیکن روایت ان میں نہیں ہوگی۔ آپ نے سنا ہوگا اور آپ کو یقینا معلوم ہوگا کہ پہلے زمانے میں مسجدیں کچی ہوتی تھیں، نمازی پکے ہوتے تھے ،اس زمانے میں مسجدیں پکی ہیں، نمازی کچے ہیں۔ کیسے انقلاب آئے گا؟ مسجدیں کچی تھیں، نمازی پکے تھے اور اب مسجدیں پکی ہیں اور نمازی کچے ہیں، بلکہ #
        مسجد تو بنادی شب بھر میں ایماں کی حرارت والوں نے
        من اپنا پرانا پاپی ہے برسوں میں نمازی بن نہ سکا

مسجد کے قریب کتنے مسلمان رہتے ہیں، سیکڑوں اور ہزاروں اذانیں لاؤڈ اسپیکر پر ہوتی ہیں، لیکن لوگ مسجد میں نماز پڑھنے نہیں آتے۔ یعنی ایک تو یہ کہ نمازی کچے ہیں اور ایک یہ کے نمازی ہی نہیں۔ کتنے افسوس کی بات ہے! اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ تارک قرآن ہوئے ہیں، قرآن کریم کو ترک کرنے کی وجہ سے یہ صورت حال ہے ۔

میں نے حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی کی صحبت اٹھائی ہے اور اسی طریقہ سے شیخ الاسلام والمسلمین حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی کی خدمت میں کافی وقت گزارا ہے اور اسی طریقہ سے حضرت شیخ الحدیث حضرت مولانا زکریا کے ساتھ بھی میں نے کافی وقت گزارا ہے۔ آپ کو معلوم ہے کہ کتاب اللہ اور رجال اللہ یہ دو ذریعہ ہوتے ہیں انسانوں کی ہدایت کے لیے، کتاب اللہ قرآن ہے، ہم نے اس کو پڑھا ہے اور اس کی مستند شرح اورمعتبر احادیثِ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کو پڑھنے میں اور پڑھانے میں ہم نے اپنی ساری عمر لگائی ہے تو کتاب اللہ سے بھی ہمارا رابطہ ہے اور رجال اللہ سے بھی ہمارا رابطہ ہے۔ حضرت تھانوی، حضرت مدنی اور شیخ الحدیث مولانا زکریا کے مقابلہ میں اس گزری ہوئی صدی میں مجھے کوئی اور نظر نہیں آیا اور یہ تو آپ کو معلوم ہی ہے کہ ہم نے، چوں کہ مدرس ہیں ،عمر اور عمر کا بہترین حصہ احادیث نبوی کی درس و تدریس میں گزارا ہے تو ہم اچھا نہیں سمجھتے کہ آج علماء کے فوٹو چوراہوں پر لٹکے نظر آئیں ،اس زمانہ کے جو مختلف محبوب با اثر علماء ہیں، وہ سب اس میں مبتلا ہیں، کیا اس کا نتیجہ یہ نہیں نکلے گا کہ عوام یہ سمجھیں گے کہ تصویرکی شریعت میں کوئی ممانعت نہیں ہے؟ یقینا عوام جب علمائے کرام کی تصاویر کو چوراہوں پر عام دیکھیں گے اور پورے ملک میں جب یہ فضا قائم کی جائے گی تو بلاشبہ عوام پر یہ اثر ہوگا کہ شریعت میں تصویر پر کوئی نکیر نہیں آئی۔

ایسا دوسرامسئلہ بینکاری کا ہے، اس کو بھی رواج دیا جا رہا ہے، اسلام کانام دیا جارہاہے، میں کسی کی توہین نہیں کرنا چاہ رہا ،میں کسی کی تنکیر نہیں کرنا چاہتا ،میں کسی کو رسوا اور ذلیل نہیں کرنا چاہتا، میری نہ یہ حیثیت ہے اور نہ میرا یہ مقام ہے، لیکن مجھے تشویش لا حق ہے، میں کسی صورت میں یہ ماننے کے لیے تیار نہیں کہ میں نے اپنے جن اکا بر کانام لیا اور میں نے جس قرآن اور احادیث کا ذکر کیا، ان کی تعلیمات کے خلاف جب یہ چیزیں آتی ہیں تو تکلیف ہوتی ہے، ایسی تکلیف ہوتی ہے جو ناقابل بیان ہے اور میں اس تکلیف کے اظہار پر مجبور ہوں، لہٰذا میں نے آپ کے سامنے اس کا ذکر کیا، میں نے تین نام لیے ،میں نے احادیث نبویہ کا ذکر کیا، ان ناموں اور ان احادیث نے ان تمام چیزوں پر گویاخط کھینچ دیا ہے کہ یہ ٹھیک نہیں ہیں، یہ صحیح نہیں ہیں، بہر حال حدیث میں کیا فرمایا گیا ہے” علما ؤھم شر من تحت أدیم السماء، ومن عندھم تخرج الفتنة،وفیھم تعود“علماء کے ذریعہ یہ فتنے ظاہر ہو رہے ہیں اور اس کا اثر علماء پر پڑ رہا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی نصرت اور اللہ کی مدد سے محروم ہوگئے، یہ جو کوششیں ہو رہی ہیں آپ دیکھ رہے ہیں کہ پاکستان میں اسلام نافذ ہو جائے، یہ کوششیں کبھی کا م یاب نہیں ہوں گی، ہم اپنے آپ کو دھوکہ دینے کے لیے جو چاہے کہتے رہیں، لیکن واقعہ اور حقیقت یہ ہے کہ ان کے کام یاب ہونے کا کوئی امکان نہیں ہے اور 66,65سال اس کی دلیل ہیں کہ یہ کوشش کام یابی سے ہم کنار نہیں ہوگی۔اس کے بعد میں آپ سے ایک بات عرض کروں گا کہ جس طریقہ سے جسم سے روح علیحدہ نہیں ہو سکتی ،جس طریقہ سے پھول سے خوش بو علیحدہ نہیں ہو سکتی ،جس طریقہ سے آسمان سے بلندی علیحدہ نہیں ہو سکتی، جس طریقہ سے زمین کی پستی ختم نہیں کی جاسکتی، اسی طریقہ سے قرآن کریم سے ہدایت ختم نہیں کی جاسکتی ۔پھول میں خوش بو لازماًہو گی ،آسمان میں بلندی ہو گی ، زمین میں پستی ہو گی ، سورج کے اندر ضیاء ہو گی، چاند کے اندر نور ہو گا ، اسی طریقہ سے قرآن کریم میں ہدایت ہو گی ۔

سوال یہ پیدا ہو تا ہے کہ قرآن کے اندر آپ ہدایت کومفہوم کر رہے ہیں تو قرآن کریم نے ایک جگہ ﴿ھدی للناس﴾ کہا ہے، ایک جگہ ﴿ھدی للمتقین﴾ کہا ہے تو ناس عام ہے ، متقین خاص ہے، دونوں میں تعارض ہے ؟تو اس کا جواب یہ ہے کہ قرآنی اصطلاح میں جو متقین نہیں وہ انسان نہیں، ﴿اولئک کالانعام بل ہم أضل﴾ وہ چوپایوں سے بھی گئے گزرے لوگ ہیں۔لیکن آپ کا یہ خیال کہ قرآن کریم ایک طرف تو ﴿ھدی للناس﴾ کہتا ہے تو ایک طرف ﴿ہدی للمتقین﴾ کہتاہے، دونوں میں تعارض ہے۔ ہم نے آپ سے عرض کیا کہ تعارض نہیں ہے، وہ لوگ جو متقی نہیں ہیں ناس میں داخل ہی نہیں ہیں۔ یہ فیصلہ خود قرآن نے کیا ہے ﴿اولئک کالانعام بل ھم أضل﴾ کہہ کر ان کو انسانیت سے خارج کر دیا ہے۔ اس کے علاہ دوسری ایک بات آپ اور کہہ سکتے ہیں ،وہ یہ کہ بارش ہوتی ہے، آپ اس کو بارانِ رحمت کہتے ہیں، پوری زمین اس سے مستفید ہوتی ہے، لیکن آپ نے دیکھا کہ جو زمین شور ہوتی ہے، جو زمین بنجر ہوتی ہے، اس کے اندر بارش کیخوش گوار اثرات کو قبول کرنے کی صلاحیت نہیں ہوتی، وہ بارش کے خوش گوار اثرات کو قبول نہیں کرتی، جیسے پہلے سے ویران ہے ،اس کے بعد بھی اسی طریقہ سے ویران ہوتی ہے۔ تو قرآن بے شک بارانِ رحمت کی طرح ہے، لیکن جنہوں نے اپنے دل کی زمین کو بنجر بنا دیا ہے، نافرمانیاں کرکے، نافرمانیوں میں مبتلا رہ کر، الله تبارک وتعالیٰ کے احکام سے انحراف کرکے انہوں نے اپنے دل کی زمین کو بنجر بنا دیا ہے، لہٰذا قرآن کی بارانِ رحمت سے ان کو فائد ہ نہیں ہوا۔ اس کا تقاضا یہ ہوا کہ ہمیں قرآن کریم کے ساتھ اپنا رابطہ اور اپنا تعلق مضبوط کرنا چاہیے، نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمام بلاد کو فتح کیا گیا ہے، قھراً قتال کے ذریعہ سے او رجہاد کے ذریعہ سے، لیکن مدینہ کو فتح کیا قرآن نے ۔آپ کو معلوم ہے کہ نبی پاک صلی الله علیہ وسلم مکہ میں تھے، وہاں کی زندگی بڑی پر مشقت تھی ،وہاں اسلام کے پھلنے پھولنے کے مواقع بالکل موجود نہیں تھے، نبی پاک صلی الله علیہ وسلم کے لیے ، آپ کے صحابہ کے لیے ایسی ایسی ناقابل برداشت مصیبتیں تھیں کہ ان کو سن کر آدمی لرزجاتا ہے، کانپ جاتا ہے۔ چنا ں چہ نتیجہ یہ ہوا کہ مدینہ منورہ کے چھے آدمی آپ کے پاس آئے، انہوں نے اسلام قبول کیا، اگلے سال بارہ آدمی آئے، انہوں نے اسلام قبول کیا، اگلے سال 72 آدمی آئے او رانہوں نے اسلام قبول کیا، مکہ مکرمہ کے جو حضرات تھے وہ ان سے بالکل بر عکس ،ان سے بالکل بر خلاف تھے، مدینہ طیبہ کے اندر اسلام کا استقبال ہوا، حضرت جعفربن عبداللہ کہتے ہیں کہ ہجرت سے دو سال پہلے مدینہ طیبہ میں قرآن کریم کی تعلیم کے مراکز قائم ہو گئے تھے، دو سال پہلے حضرت رافع بن مالک خزرجیایک صحابی ہیں، وہ چھے میں بھی شامل ،بارہ میں بھی شامل اور72میں بھی شامل تھے، آپ صلی الله علیہ وسلم نے ان کو قرآن مجید کا کافی حصہ عنایت فرمایا، وہ مدینہ میں آئے، جہاں آج مسجد یمامہ ہے، وہاں مسجد بنی حذیفہ انہوں نے قائم کی اور قرآن کریم کی تعلیم کا سلسلہ قائم کیا ،یہ رافع بن مالک خزرجی ہیں۔

قباء، جو مدینہ کے جانب جنوب میں ہے، جہاں آج مسجد قباء موجود ہے ،وہاں سالم مولی ابی حذیفہ  نے قرآن کی تعلیم کا اہتمام کیا اور وہیں ایک صحابی سعد بن خثیمہ کا مکان تھا۔ان کی شادی نہیں ہوئی تھی تو مکہ سے جو لوگ ہجرت کرکے آتے تھے اور ان کے ساتھ یا تو شادی نہ ہونے کی وجہ سے بیوی،بچے نہیں ہوتے تھے یا بیوی،بچوں والے تنہا آتے تھے اور بیوی بچوں کو مکہ چھوڑدیتے تھے، وہ حضرت سعد بن خثیمہ کے مکان میں مقیم رہتے تھے ۔وہ حضرت سالم مولی ابی حذیفہکے درس کے طالب علم تھے، مدینہ طیبہ کے جانب شمال میں مصعب بن عمیر  کی درس گاہ قائم تھی اور وہ قرآن کا درس دیا کرتے تھے، دیگر احکام تو آئے نہیں تھے، نماز کا حکم تھا،عقائد کے احکام،اخلاقیات کی تعلیم تھی، ان کا چرچہ ہوگیااور گھر گھر قرآن مجید کا اہتمام ہوتا تھا، حضرت اسعد بن زرارہ کے مکان میں بھی تعلیم کا مقام تھا اور حضرت جابر  کہتے ہیں کہ اور گھروں کے اندر بھی قرآن مجید کا اہتمام تھا تو نتیجہ کیا ہوا؟نتیجہ یہ ہوا کہ:﴿ یدخلون فی دین اللہ افواجاً﴾ہوگیا، بڑے بڑے حضرات اور ان کے تمام متعلقین اسلام میں داخل ہوئے اور مدینہ طیبہ آپ کے آنے سے پہلے فتح ہوگیا پھر بعد میں آپ صلی الله علیہ وسلم تشریف لائے۔

تو میرے عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ہمیں اپنا تعلق قرآن کریم سے مضبوط اور مستحکم کرنا چاہیے اور جو ہم پڑھتے ہیں اس کو سمجھ کر پڑھیں اور جو ہم نے پڑھا ہے اس کو تاویلات کے ذریعہ سے نظر انداز نہ کریں ،یہ تاویلیں ہی ہیں جنہوں نے ہمارا ستیاناس کر رکھا ہے، ہم نے اپنے اکابر کو بھی دیکھا،ہم نے اکابر کی صحبت بھی پائی ہے،ہم نے ان سے قرآن و حدیث بھی پڑھا ہے ،وہاں یہ ساری باتیں نہیں تھیں تو اس لیے میری آپ سے گزارش ہے کہ قرآن کریم سے آپ ربط اور تعلق قائم کریں اور بلاکسی تاویل کے جو قرآن و حدیث کی تعلیمات ہیں ان پر من وعن عمل کرنے کی کوشش کریں۔ 
Flag Counter