||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
عتق کی تعریف ،حکم اور شرائط
||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
عتق کا لغوی معنی :
عِتق ، عین کے کسرہ کے ساتھ ”اِزالۃ المِلک “ کے معنی میں آتا ہے۔ عَتَقَ الفَرَسُ اور عَتَقَ الفَرَخُ(گھوڑے کا بے لگام ہونا اور پرندے کا اُڑجانا) سے مُشتق ہے کیونکہ غلام بھی آزاد ہونے کے بعد جہاں چاہے چلا جاتا ہے ۔(عون المعبود:10/303)
عتق کا اِصطلاحی معنی :
عِبَارَةٌ عَنْ إسْقَاطِ الْمَوْلَى حَقَّهُ عَنْ مَمْلُوكِهِ بِوَجْهٍ يَصِيرُ بِهِ مِنْ الْأَحْرَارِ۔عِتق نام ہے اِس بات کا کہ مولیٰ اپنے اُس حق کو جو اُسے غلام پر حاصل ہے ، ساقط کردے اِس طور پر کہ وہ آزاد لوگوں میں سے ہوجائے۔(الجوھرۃ النیّرۃ :2/95)
اِعتاق کا حکم :
غلام آزاد کرنے کے حکم کی کئی صورتیں ہیں ، جن کا حکم احوال کے مختلف ہونے سے مختلف ہوتا ہے :
مستحب: عمومی حالت میں غلام آزاد کرنا ایک امرِ مستحب کام ہے ۔
مکروہ : جبکہ غلام کے بارے میں ضرر کااندیشہ ہو ، مثلاً وہ کمانہ سکے گا ، پس اِس صورت میں آزاد ہوجانے سے وہ
مالک کے نفقہ سے محروم ہوجائے گا ، یا دار الحرب چلے جانے کا اندیشہ ہو یا اُس کے بارے میں یہ اندیشہ ہو کہ وہ آزاد ہوکر چوریاں کرتا پھرے گا یا اُس کے بارے میں زنا کے اندیشے ہوں ۔