اِس میں ائمہ اربعہ کا اختلاف ہے کہ یہ طریقہ منسوخ ہے ، یا اب بھی ایسا ہی کیا جائے گا :
احناف : قرعہ اندازی کا طریقہ منسوخ ہے ، اب اگرکوئی ایسا کرے تو چھ غلاموں میں سے ہر غلام کا ایک
ثلث آزاد ہوگا اور وہ اپنے بقیہ دو ثلث کی قیمت کماکر ورثاء کو دینے کا پابند ہوگا ۔
ائمہ ثلاثہ : قرعہ اندازی کے ذریعہ دو غلاموں کی تعیین کرنا منسوخ نہیں ، پس قرعہ اندازی کے ذریعہ تہائی
مال کے بقدر دو غلام آزاد ہوں گے اور بقیہ چار غلام ہی رہیں گے ۔(بذل المجہود:16/293)
آزاد کردہ غلام کا مال کِس کا ہے :
اگر کوئی مالک غلام آزاد کرے اور اُس کے پاس مال ہو تو اُس وہ مال مالک کا ہے یا غلام کا ، اِس میں اختلاف ہے :
امام مالک : وہ مال غلام کا ہے ، ہاں اگر مالک نے آزاد کرتے ہوئے شرط لگائی ہو تو مالک کا ہوگا ۔
ائمہ ثلاثہ : ہر صورت میں وہ مال مالک کا ہی ہوگا ، خواہ مالک شرط لگائے یا نہیں ۔
امام مالک حدیث:مَنْ أَعْتَقَ عَبْدًا، وَلَهُ مَالٌ فَمَالُ الْعَبْدِ لَهُ، إِلَّا أَنْ يَشْتَرِطَهُ السَّيِّدُ۔(ابوداؤد :3962)سے استدلال کرتے ہیں ۔جمہور کے نزدیک اِس کا جواب یہ ہے :
یہ مالک کی جانب سے احسان اور مسامحت پر محمول ہے ، یعنی عموماً چونکہ مالک غلام کو آزاد کرتے ہوئے مال بھی دیدیتے ہیں اِس لئے بطور استحباب کے مالکین سے کہاگیا ہے کہ وہ مال بھی دیدیں ۔
” فَمَالُ الْعَبْدِ لَهُ “ میں ضمیر کا مرجع غلام نہیں ، بلکہ ” مَنْ “ ہے اور اُس سے مراد مالک ہے ، پس گویا حدیث سے غلام کے لئے مال ثابت ہی نہیں ہورہا ۔(عون المعبود:10/358)