شیخ ان سب بڑے بڑے اولیاء اللہ کی زیارت ہوئی، انہوں نے فرمایا کہ گھبراؤ مت یہ دشمن ان شاء اللہ تعالیٰ گھٹنے ٹیک دیں گے ۔ پھر دوسرے ہی دن انہوں نے معافی مانگی اور آکر ہاتھ جوڑے۔ تو مولانا شاہ محمد احمدصاحب ایسی بلاؤں میں مبتلا ہوئے۔ پھر ان کے اُس زمانہ کے شعر دیکھیے۔ ان کی کتاب ہے ’’عرفانِ محبت‘‘ اس کے اندر یہ درد بھرے اشعار ہیں ؎
بڑھ رہا ہے پھر شرور دشمناں
آتے ہیں ہر سمت سے تیر و سناں
مجھ کو جی بھر کر ستالیں شوق سے
میں خلاف حق نہ کھولوں گا زبان
حق پرستی کی سزا جورِ عیاں
ہے یقیناً سنتِ پیغمبراں
یہ ہے حضرت کا درد بھرا کلام، جس میں انہوں نے فریاد کی ہے کہ میں نے کون سا جرم کیا تھا، صرف سنت کا راستہ بتایا تھا اور بدعت کو مٹایا تھا جس کی مجھے اتنی بڑی سزا دی گئی۔ دیکھو شعر اس کو کہتے ہیں۔ جب کوئی ستاتا ہے اور دل سے آہ نکلتی ہے تو وہ آہ ایسی ہوتی ہے جو ساتوں آسمان پار کرجاتی ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ مظلوم کی آہ سے ڈرو، مظلوم کی آہ میں اور اللہ میں کوئی حجاب اور فاصلہ نہیں ہوتا۔ مظلوم کی دُعا فوراً قبول ہوتی ہے۔ مجھے اپنا ایک شعر یاد آیا ؎
ہر شاخ سے لپٹ کر روتی ہے ایک چڑیا
دیکھا ہے جب سے اپنا جلتا ہوا نشیمن
جب چڑیا دیکھتی ہے کہ کسی نے میرے گھونسلہ میں آگ لگادی ہے تو کیا وہ بیچاری آہ نہ کرے گی؟
خدّام دین کے لیے ذکر کی اہمیت
اس لیے جتنے سالکین خاص کر میرے سامنے جو حضرات بیٹھے ہیں اور ان میں سے بعض کو دین کی خدمت کی سعادت بھی نصیب ہے، ان سے عرض کرتا ہوں کہ ذکر میں ناغہ مت کرو، ورنہ علوم وارد نہیں ہوں گے، صوفیاء کا اجماع ہے کہ مَنْ لَا وِرْدَ لَہٗ لَا وَارِدَ لَہٗ، جس