بنتا ہے تو نورٌ عَلٰی نورٌ ہوجاتا ہے کیوں کہ اس کے پاس علم کا نور اور عمل کا نور ہوتا ہے۔ یہ میرے شیخ کے الفاظ ہیں کہ عالم جب سلوک طے کرتا ہے اور کسی بزرگ سے تعلق قائم کرتا ہے تو وہ نورٌ علیٰ نور ہوجاتا ہے یعنی اس کے علم کے نور پر اس کے عمل کا نور مستزاد ہوجاتا ہے۔ تو حضرت نے فرمایا کہ یہاں اہل علم کو اہل ذکر فرمانا یہ تازیانہ ہے کیوں کہ اللہ نے توجہ دلادی کہ دیکھو! ہم نے تمہارا نام اہل ذکر رکھا ہے لہٰذا خبردار! ہماری یاد سے کبھی غافل نہ ہونا۔
صحبت کن لوگوں کی اختیار کرنی چاہیے؟
تو میں نے جو حدیث پڑھی تھی کہ سَائِلُوا الْعُلَمَآءَعلماء سے مسائل پوچھا کرو اور وَخَالِطُوا الْحُکَمَآءَ جو اللہ والے ہیں ان کے پاس تو بہت زیادہ رہا کرو۔ حکیم الامت رحمۃ اللہ علیہ،التشرف بمعرفۃ احادیث التصوف میں اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں کہ مسائل تو علماء سے پوچھو، لیکن جو حضرات اللہ والے ہیں ان کے ساتھ زیادہ چمٹے رہو۔ خَالِطُوْاکے معنیٰ ہیں کہ مخالطت کرو، ان سے اختلاط رکھو، ان سے ملے جلے رہو۔اور جَالِسُوا الْکُبَرَاءَ جو لوگ بڑے بوڑھے ہیں، چاہے عالم نہ ہوں مگر قوم کے بڑے بوڑھے ہیں، ان کے پاس بھی بیٹھو، ان کو حقیر نہ سمجھو کیوں کہ بڑے بوڑھوں سے تجربہ ملتا ہے۔ اس لیے حدیث کے الفاظ ہیں جَالِسُوا الْکُبَرَاءَ لہٰذا خاندان کے جو بڑے بوڑھے ہیں کبھی کبھی جاکر ان سے سلام دعا کرلیا کرو، ان سے دو چار باتیں سیکھ لیاکرو، کبھی وہ کوئی تجربہ کی بات بتادیتے ہیں کیوں کہ ان کے بال تجربے میں سفید ہوئے ہیں، ان کے بالوں نے ہر موسم دیکھا ہوتا ہے۔
بڑے بوڑھوں کو حقیر نہ سمجھیں
میرے شیخ شاہ عبدالغنی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ ایک مرتبہ بیس نوجوانوں کی ایک جماعت کسی شادی میں گئی۔ میزبان نے کہا تھا کہ کسی بوڑھےکو نہیں لانا، سب جوان ہی آئیں گے، لہٰذا جب جانے کا وقت آیا تو نوجوانوں نے کہا کہ ہم بوڑھوں کو نہیں لے جائیں گے۔ ایک بوڑھےنے کہا کہ میاں! کم از کم ایک بوڑھےکو تو لے ہی جاؤ۔ انہوں نے کہا کہ آپ وہاں